Friday, February 10, 2012

سنگین جرمایم ندیم اشرف

سنگین جرم
ٓ ایم ندیم اشرف
زندگی جو انسان کو اللہ نے بخشی ایک انمول تحفہ قدرت ہی۔ اس کا شمار قدرت
کی تمام نعمتوںمیں سب سے اوپر ہے ۔انسان کو یہ تحفہ عطاکرنے سے پہلے اللہ
نے اس تحفے کو پر لطف کرنے کے لیے آسمان بنائی۔آسمان پر چاند ستارے
سجائے زمین پر پہاڑ پیڑ پودے پھل پھول اگائے سمندر دریا بہائے اور پھر
ان نعمتوں سے لطف اٹھانے والے انسان بنائے ۔مگرانسانوں نے ان تمام اعلیٰ
نعمتوں سے لطف اٹھانے اور اللہ کا شکرادا کر نے کی بجائے دو سرے انسانوں
کے ہی خونبہائے ۔انسان تو انسان ہے مسلمان ہو یا عیسائی ،ہندو ہو یا
سکھ،یہودیہو یا مرزائی خواہ اس کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو ہر مذہب میں
اللہ جل شانہ اور اس کے بنائے ہوئے جنت دوذخ کا ذکرہے ہر انسان کا تعلق
اللہ تعالیٰ کی بنائی ہو ئی تمام مخلوقات میںسے ایک افضل مخلوق جسے اشر
ف المخلوقات کا در جہ عنایت کیا گیا ہے سے ہے ۔
کیو نکہ اللہ تعا لیٰ نے ہر انسان کو سترہ ماوں کے جتنا پیار کیا ہے اس
لیے اللہ تعالیٰ کے حکم پر فرشتوں نے انسان کو سجدہ کیا ایک دوسرے انسان
کو قتل کرنے سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچتا کہ وہ قتل جیسا سنگین جرم ہی؟وہ
بھی اس انسان کا جس کا اللہ تعالیٰ نے سترہ ماوںکے جتنا پیار کیا جس کی
خاطرفرشتوں سے سجدہ کروایا اس جرم کو کرنے سے اللہ کی دوری اور ناراضگی
حاصل ہو گی ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہی۔اللہ تعا
لیٰ فرماتے ہیں اے انسان میں نے تم کو پیدا کیا زنگی تمہارے پاس میری اما
نت ہے میں اسے جب چاہوں واپس لے سکتا ہوں۔ اگر انسان کوئی چیز بناتا ہے
جب وہ تیار ہو جاتی ہے تو وہ اس کو اپنی من چاہی قیمت پہ بیچتا ہے لیکن
جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی بخشی تو اللہ تعالیٰ اس کو خوبصورت
زندگی دینے کے بدلے کو ئی قیمت وصول نہیں کرتا سوچو۔
اگر انسان اپنی بنائی ہو ئی چیز کی من چاہی قیمت وصول کرتاہے تو رب جس
نے انسان کو زندگی جیسی نعمت مفت میں دے ہے اگر اللہ تعالیٰ اس کی قیمت
مانگے تو وہ کیا ہو گی بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے انسا ن کو
انسان سے زندگی چھین لینے کا کو ئی حق نہیں لیکن ایک انسان ظاہری شان و
شوکت نا جائز خواہشات اور کئی غلط مقاصد کی تکمیل کے لیے دوسرے انسان کا
خون بہانے سے گریز نہیں کرتا کیونکہ وہ ترقی اور بلندی کے لیے نہ اترنے
والے نشے میں مد ہوش ہو جاتا ہے وہ بھول جاتا ہے وہ نظر انداز کر دیتا
ہے کہ وہ اللہ تعا لیٰ سے کو ن سا وعدہ کر کے دنیا میں آیا۔ اپنی حوس کے
اس نشے میں وہ اپنے سچے پرور دگار کے سچے احکامات کو رد کر دیتا ہی۔وہ یہ
بھی بھول جاتاہے کہ جس جھو ٹی شان و شوکت نا جا ئز خوا ہشات اور غلط
مقاصد کو پورا کرنے کے لیے دوسرے انسان کا خون کر رہا ہے ۔جس ترقی و
بلندی کو پانے کے لیے لاشوں کی سیڑی بنا راہا ہے ۔ خواہ وہ اس کے
بھائیوں کی ہی نا ہو۔ترقی و بلندی ملنے کے بعد بھی اسے ایک دن ان تمام
کامیابیوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو نا ہے اور اس کی یہ
بھول اس کو جہنم میں لے جائے گی۔
اگر انسان یہ سوچ لے کہ قتل جیسے سنگین جرم سے بچا جائے اگر یہ جرم سرزد
ہو گیا تو مان لو انسان دنیا میںضرور سزا پا ئے گا ۔دنیا میں اس کی سزا
بھی ختم ہو سکتی ہے کیو نکہ دنیا میں سزا کی ایک حد مقرر ہے ۔مگر آخرت کی
سزا سے بچ پانا نا ممکن ہے اور آخرت میں جو سزا ملے گی اس کی حد مقرر
نہیں۔
ایم ندیم
اشرف : 03065231906