Saturday, December 31, 2011

حکمرانوں کی غریب عوام سے کھلواڑ پر قائد حزب اختلاف سے گفتگو۔چودھری احسن

حکمرانوں کی غریب عوام سے کھلواڑ پر قائد حزب اختلاف سے گفتگو۔چودھری احسن پر
یمی


مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن عروج پر
ہے،غربت نے عوام کو مار ڈالا ہے،بجلی نہیں، گیس نہ ہونے سے چولہے ٹھنڈے پڑ
گئے،آج پی آئی اے اور ریلوے بند ہیں،غیر ملکی طاقتیں پاکستان کا مذاق اڑاتی
ہیں، آج ہماری حکومت ہوتی تو گیس بند نہ ہوتی، بجلی کا مسئلہ حل ہوچکا
ہوتا۔گزشتہ ہفتہ کوگوجرانوالہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے نوازشریف کا
کہنا تھا ملک کو بنے چونسٹھ سال ہوگئے لیکن آج بھی پاکستان اسی طرح محرومیوں
کا شکار ہے، آج دو وقت کی روٹی نہیں ، پینے کا صاف پانی نہیں،ہم حکومت کو
سمجھاتے رہے، کہا صحیح لائن پر آو،پاکستانی بھکاری نہیں خود مختار قوم
ہے۔انہوں نے کہا کہ حکمران عوام کی غربت سے کھیلتے رہے، اپنی جیبیں بھرتے رہے،
بجلی گیس کے ریٹ بڑھے تو چین سے نہیں بیٹھوں گا، جس قوم نے اربوں ڈالر
ٹھکرادیئے وہ کبھی بھیک نہیں مانگ سکتی،پاکستان میں کرپشن عروج پر ہے۔انہوں نے
کہا کہ جو ایبٹ آباد میں ہوا وہ قوم کے لئے ناقابل برداشت ہے، ہم پاکستان کی
موجودہ صورتحال کو برداشت نہیں کرینگے۔جبکہ قائد حزب اختلاف ورکن قومی اسمبلی
پی ایم ایل نون کے مرکزی رہنماءچودھری نثارعلی خان نے گزشتہ ہفتہ کو پی یم ایل
نون کے زیر اہتمام ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے اس سے
قبل فیصل آباد کے جلسہ میں اثاثہ جات کے حوالے سے کہا تھا کہ ہمارا مقابلہ
میڈیا کے ذریعے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے ذریعے کریں لیکن کوئی جواب نہیں
آیا۔اس موقع پر چودھری نثارعلی خان نے عمران خان کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا
کہ عمران خان کراچی میں کہتا ہے کہ میں میچ فکسنگ نہیں کرتا اس حوالے سے انہوں
نے کہا کہ کراچی میں عمران خان نے ایم کیو ایم کے خلاف دو لفظ تک نہیں بولے یہ
میچ فکسنگ نہیں تو کیا ہے۔انہوں نے عمران خان بارے مزید کہا کہ عمران خان ملک
سے باہر جاتا ہے تو کہتا ہے کہ میں لبرل ہوں ملک کے اندر آتا ہے تو کہتا ہے کہ
میں قدامت پسند ہوں۔عمران خان خود مختاری کی بات کرتا ہے لیکن کندھوں پر مشرف
کے حواریوں کو بٹھایا ہوا ہے۔ایک طرف امریکہ کے خلاف بات کرتا ہے لیکن دوسری
طرف امریکی سفیر سے جھک جھک کر ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان سٹیڈیم نہیں
بھر سکتے وہ ہمارا مقابلہ کیا کریں گے۔انقلاب کا نعرہ لگانے والے دوسروں کے
کندھوں پر نہیں چڑھتے انہوں نے عوام کو خبردار کیا کہ وہ مشرف کے بہروپیوں سے
دھوکہ مت کھائیں انہوں نے کہا کہ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ موٹر وے،گوادر
پورٹ،بڑے شہروں میں تعمیر ائیر پورٹ نواز شریف دور میں مکمل کئے گئے جبکہ ملک
میں بدترین چونگیوں کے نظام اور سندھ میں ڈاکو راج کا خاتمہ بھی نواز شریف دور
میں ہوا۔ چودھری نثارعلی خان نے کہا کہ نواز شریف اور ہم سب کا کردار عوام کے
سامنے ہے۔ہم پاکستان کے عوام کی تاریخ بدلیں گے۔ وطن عزیز کو درپیش چیلنجز جن
میں دہشت گردی کے علاوہ بیرونی خطرات کی جس صورتحال کا سامنا ہے وہ اندرونی بد
نظمی، بد عنوانی، اور من مانے فیصلوں کے ساتھ مل کر ہر روز سنگین تر ہوتی چلی
جا رہی ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی سے وابستگی کے دعووں کے باوجود اس کے فیصلوں
کو پس پشت ڈالنے کی مثالیں قائم کی جا رہی ہیں۔ عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد
میں لیت و لعل کے ذریعے آئین اور قانون کی حکمرانی کے تصور کو مجروح کیا جا
رہا ہے۔ پٹرول، گیس اور بجلی کے بحران کو ایسے مقام پر پہنچادیا گیا ہے کہ
صنعت کار مایوس ہو کر دوسرے ملکوں کا رخ کررہے ہیں، کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے،
بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور مہنگائی غریب عوام کے لئے ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔
مسائل کا پہاڑ ہر روز بلند تر ہوتا جا رہا ہے اور حکمرانوں کے طرز عمل سے
بالکل انداہ نہیں ہوتا کہ انہیں عوام کے مسائل و مشکلات کا احساس ہے۔ملک و قوم
کو درپیش مسائل کی مناسبت سے گزشتہ دنوں قائد حزب اختلاف و رکن قومی اسمبلی
چودھری نثار علی خان مرکزی رہنماءپی ایم ایل نون کے ساتھ ایسوسی ایٹڈ پریس
سروس،اے پی ایس نیوز ایجنسی نے پارلیمنٹ میں ان کے چیمبر میں ایک نشست کا
اہتمام کیا۔اس موقع پر ملکی معاشی عدم استحکام اور عوام کو آئے روزدرپیش
مشکلات کے حوالہ سے مختلف سوالات زیر بحث آئے۔اس موقع پر جو تفصیلی گفتگو ہوئی
وہ قارئین قارئین کی نذر ہیں۔ قائد حزب اختلاف و رکن قومی اسمبلی چودھری نثار
علی خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ موجودہ حکومت کے پچھلے پونے چار برسوں
میں گورننس کے فقدان کے باعث معیشت مسلسل ہچکولے کھاتی رہی ہے جبکہ قانون کی
عملداری عملاً ختم ہونے کے باوجود ہر قسم کے جرائم میں اضافہ ہوا ہے جس کے
باعث تاجروں سمیت عوامی حلقوں کی طرف سے یوٹیلٹی بل اور ٹیکس نہ دینے کی باتیں
تک سامنے آچکی ہیں۔ نظم حکومت کی خرابی کے باعث کبھی مڈٹرم الیکشن کی تجاویز
سامنے آتی ہیں اور کبھی ایوان کے اندر سے تبدیلی کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ان میں
سے کوئی بھی بات جمہوری روایات اور طریقوں کے منافی نہیں۔ منتخب حکومت کا مدت
پوری کرنا یقیناً احسن بات ہے کیونکہ اس طرح حکمرانوں کو اپنے افکار و نظریات
کے مطابق کام کرنے اور متعین روڈ میپ کے ذریعے ملکی ترقی، خوشحالی کے لئے کام
کرنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن جب عوام کی مشکلات میں اضافے کا سلسلہ جاری ہو اور
اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہ آرہی ہو تو ایسی تجاویز کا برا نہیں منایا
جانا چاہئے جن کا مقصد حالات میں بہتری لانا ہو۔ قائد حزب اختلاف و رکن قومی
اسمبلی چودھری نثار علی خان نے مزید کہا کہ میاں نواز شریف کی طرف سے جلد
الیکشن کرانے کے مشورے کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وسط مدتی الیکشن
یا قبل از وقت انتخابات کا انعقاد کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ جمہوری روایات
کا حصہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک اس وقت جس نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اس
میں سیاستدانوں کے درمیان افہام و تفہیم کی ضرورت حد درجہ بڑھ چکی ہے۔ غیر
سیاسی قوتوں کو مداخلت کا موقع نہ دینے کے اعلانات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم
ہونے کے باوجود اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ وطن عزیز میں جب
بھی سیاستداں باہمی افہام و تفہیم میں ناکام ہوئے ہیں تو فیصلہ غیر سیاسی
قوتوں نے کیا ہے۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ سیاست داں خود ہی مل بیٹھ کر ملک و قوم
کے بہتر مفاد میں جلد فیصلے کریں اور اتفاق رائے سے انتخابی شیڈول بنائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دنوںسپریم کورٹ کے دیئے گئے یہ ریمارکس سیاسی
قوتوں کے لئے چشم کشا ہونے چاہئیں کہ الیکشن کے عمل میں شفافیت نہ ہو تو نظام
بھی پٹری سے اتر سکتا ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جمہوری ممالک انتخابی عمل
کی شفافیت کو اپنے نظام کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھتے ہوئے ایسے تمام ممکنہ
طریقے اختیار کرتے ہیں جن کے ذریعے انتخابات کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ
انعقاد کو یقینی بنایا جا سکے۔ جمہوری معاشرے اس معاملے میں معمولی کوتاہی بھی
برداشت کرنے کے روادار نہیں۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حقیقت یہ ہے
کہ شفاف انتخابات ہی جمہوریت کو یقینی بناتے، اس کا اعتبار قائم کرتے اور
حکمرانوں میں یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ ان کے دوبارہ انتخاب کا انحصار جعلی
ووٹوں اور نامناسب انتخابی ہتھکنڈوں کی بجائے عوام کے بے لاگ اعتماد پر ہے۔ اس
احساس کی غیر موجودگی اختیارات کے غلط استعمال، کرپشن اور من مانے فیصلوں کا
ذریعہ بن کر عوام کو مجبور کرتی ہے کہ وہ حکمرانوں کی واپسی کے لئے دن گن گن
کر تکلیف کا وقت گزاریں۔ قائد حزب اختلاف و رکن قومی اسمبلی چودھری نثار علی
خان نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف جب جلد انتخابات
کی ضرورت کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی دلیل بھی یہی ہوتی ہے کہ اقتدار کی مدت
پوری کرنے کے چکر میں حالات زیادہ خراب ہو جائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک
میں جاری سیاسی سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کئی پارٹیاں
انتخابی عمل شروع کر چکی ہیں۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور نادرا کو 23
فروری 2012ءتک انتخابی فہرستیں ہر صورت میں مکمل کرنے کا جو حکم دیا ہے، اس کی
روشنی میں بھی عام انتخابات کے انتظامات کی تکمیل کے لئے اہم بات یہ ہے کہ ان
کا انعقاد شفاف ہو اور ان کے نتیجے میں اقتدار کی منتقلی پر امن طور پر اور
خوش اسلوبی سے عمل میں آ جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر
ایک جامع حکمت عملی مرتب کریں۔ قائد حزب اختلاف و رکن قومی اسمبلی چودھری نثار
علی خان نے مزید کہا کہ اسی طرح شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے ایک غیر
جانبدار الیکشن کمیشن کی موجودگی ضروری ہے۔ اسی طرح 18 ویں
آئینی ترمیم کے تحت انتخابی فہرستوں میں ووٹروں کی تصویروں کی شمولیت یقینی
بنانے سمیت کئی معاملات ایسے ہیں جن پر سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر ایک مشترکہ
حکمت عملی وضع کرنی چاہئے تاکہ باہمی اختلافات اور افراتفری کے باعث انتخابی
عمل سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے امکانات ختم ہو سکیں۔انہوں نے مزید
کہا کہ اگر موجودہ حکومت نے آئین سے انحراف کیا تو نظام کمزور ہوگااورتیسری
قوت کوفائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے حکومتی دعوی کہ کابینہ کے 80فیصد فیصلوں
پرعملدرآمد کردیا ہے۔اس کے جواب میں کہا کہ زمین پر اس دعوے کے ثبوت کم ہی نظر
آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ کسی ایک حلقے یا طبقے کی حد تک یہ بات
کسی حد تک درست ہو مگر ملک گیر سطح پر مسائل و مشکلات کے خاتمہ کے حوالے سے
گلی کوچوں میں عام آدمی سے پوچھا جائے تو اس کا جواب اثبات میں نہیں ہوگا بلکہ
بعض لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت نے انتخابات سے قبل عوام سے جو وعدے کئے
تھے ان میں سے ایک فیصد پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ کیونکہ عملی طور پر لوگوں
کو مایوسی کے سوا زمین پر کچھ نظر نہیں آتا۔حکومت اس حوالے سے جو دعوے کررہی
ہے وہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب
آدمی سے دووقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔ آٹے دال گوشت سبزی سمیت تمام بنیادی
اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ
وزیراعظم سے اس بارے میں پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی صرف پاکستان
میں نہیں پوری دنیا میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کو معلوم ہونا
چاہیے کہ دوسرے ملکوں میں عوام کی قوت خرید پاکستان کے مقابلے میں کتنی بہتر
ہے۔ ملک بھر کے عوام کے گھروں میں چولہے ٹھنڈے ہو نے پر ایک سوال کے جواب میں
انہوں نے کہا کہ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ شہریوں کی برداشت سے باہر ہوتی
جارہی ہے اور مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکل
آئے ہیں۔ ملک کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں گیس ضرورت کے مطابق ملتی ہو۔قدرتی
وسائل کے وفاقی وزیر کی توجہ اس جانب دلائی جائے تو وہ بلاتکلف جواب دیتے ہیں
کہ ملک میں گیس ہے ہی نہیں تو ہم کہاں سے دیں حالانکہ گیس کی سپلائی یقینی
بنانا حکومت ہی کا کام ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر آنے والے وقت کے لئے پیشگی
منصوبہ بندی کرکے گیس کے نئے ذخائر تلاش کئے جاتے اور انہیں بروئے کار لایا
جاتا تو اس بحران سے بچا جا سکتا تھا۔پھر تھر میں ملنے والے کوئلے سے بھی گیس
بنانے کی رفتارتیز کی جا سکتی تھی جس سے اس کی قلت پر کسی حد تک قابو پا لیا
جاتا۔ ایران اور وسطی ایشیا کے ممالک کب سے پاکستان کو گیس فراہم کرنے کے لئے
تیاربیٹھے ہیں مگر ہم تیار نہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ایران گیس کی پائپ لائن
پاکستان کی سرحد تک پہنچا چکا ہے لیکن پاکستان کی جانب سے اس سستی گیس کی
خریداری کے لئے باہمی اتفاق رائے کے باوجود فائلیں درازوں میں بندپڑی
ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آج توانائی کا بحران ہوتا نہ منافع بخش قومی ادارے
تباہی سے دوچار ہوتے۔ سرکاری محکموں میں کرپشن ایک ناسور کی طرح سرایت کرچکی
ہے اور عام آدمی چھوٹا موٹا کام بھی رشوت یا سفارش کے بغیر نہیں کراسکتا ۔بے
روزگاری بڑھ رہی ہے،میرٹ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں،سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے،
کسادبازاری نے ملک کے معاشی مستقبل کے بارے میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کردی
ہے۔غربت کے مارے لوگ خودکشیاں کررہے ہیں،بدامنی نے لوگوں کی زندگی اجیرن
کررکھی ہے،دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکا ۔ان ابتر حالات میں بھی حکومت
اور اعلیٰ مناصب پر فائز لوگ عوام کی مشکلات دور کرنے سے زیادہ اپنے اقتدار
اور نوکریوں کے تحفظ میں لگے ہوئے ہیں۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ
مخصوص حالات میں دنیا کے اکثر ملکوں میں مقررہ آئینی مدت سے قبل بھی انتخابات
ہوتے رہتے ہیں۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کے نتیجے میں وقت سے
پہلے الیکشن ہوجائیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں۔ حکومت اور انتظامیہ کو معروضی
حالات پر نظررکھ کر ملک میں بے یقینی اور کشیدگی کی فضا کو پروان چڑھنے سے
روکنا چاہئے۔ اپنی تمام تر توجہ ملکی مسائل کے حل پر مبذول کرنی چاہئے اور
عوام میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ بہتر بنانے کے لئے موثر عملی اقدامات کرنے
چاہئیں۔ ملک اور قوم کی بھلائی اسی میں ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا
کہ ملکی معیشت کو اس وقت کئی اندرونی و بیرونی بحرانوں کا سامنا ہے لیکن اگر
بغور دیکھا جائے تو اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ بھی ہے جس میں ایک
دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں ملک کے اقتصادی و معاشی معاملات بری طرح
نظر انداز ہورہے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریلوے، قومی
ایئر لائن، بجلی پیدا کرنے والے اداروں اور اسٹیل مل جیسے بڑے بڑے ادارے مکمل
طور پر بیٹھ چکے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی طرح بحال رکھنے کیلئے ہر سال اربوں
روپے خرچ ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت ملک میں نئی سرمایہ کاری بالکل نہیں ہورہی اور
اس کی بڑی وجہ بھی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور بے یقینی ہے۔ اس وقت ہمیں ملکی
ضروریات کے مطابق بجلی پیدا کرنے اور توانائی کے وسائل حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے ہاں حکومت کا زیادہ وقت اور
توانائیاں اپنے اقتدار کو بچانے اور اپنی مدت پوری کرنے پر صرف ہورہی ہیں اور
ملکی معیشت بری طرح نظر انداز ہورہی ہے جس کے نتیجے میں عوام کے مسائل میں
تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ حکومتی سطح پر اس طرح کی غیر سنجیدہ منصوبہ بندی کی
وجہ سے اس وقت فیصل آباد سمیت پنجاب کے اکثر صنعتی شہر بند پڑے ہیں اور وہاں
مسلسل ہڑتالیں اور احتجاج ہورہا ہے۔ صنعت کار سڑکوں پر آگئے ہیں۔
گھروں تک میں گیس کی فراہمی مشکل ہورہی ہے اور صنعتوں کو ہفتے میں پانچ پانچ
دن گیس کی فراہمی معطل کی جارہی ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی سی این جی
اسٹیشن بند ہونے لگے ہیں۔ بجلی پیدا کرنے کیلئے بھی گیس کی عدم فراہمی رکاوٹ
ہے اور اس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ مزید بڑھ رہی ہے۔ منصوبہ بندی نہ ہونے کے
باعث تعلیم اور صحت کے شعبے اورزیادہ نظر انداز ہورہے ہیں۔ان حالات کا تقاضا
ہے کہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے فوری اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کی
جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ اوگرا نے نئے سال کے آغاز سے سی این جی کے نرخوں
میں46فی صد اضافے کی تجویز دے دی ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومت نے قدرتی گیس کے
صارفین پر100/ارب روپے سے زیادہ کے ٹیکس لگانے کی تیاری کرلی ہے۔ ایسی حکومت
عوام کے مسائل سے باخبر ہونے کے باوجود غریب عوام کے دکھ درد کو محسوس کرنے کی
عادی نہیں بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف حکومت میں رہنا اور اپنے عرصہ اقتدار
کو طول دینا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی اس وقت تک جو کچھ بھی کارکردگی
ہے اس سے اور ارباب اقتدار کے بیانات سے بھی اس بات کا صاف تاثر ملتا ہے کہ
حکومت کی اصل توجہ عوام کو اچھی حکمرانی دینے کے بجائے اپنے اقتدار کی مدت میں
اضافہ کرنا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اچھی کارکردگی پیش کرنے سے ابتدا ہی
سے قاصر ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی کارکردگی مزید خراب ہوتی جا رہی
ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گیس کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے
صنعت کار صنعتیں بند کرنے پر مجبور ہورہے ہیں جس سے ملک میں مہنگائی کے علاوہ
بیروزگاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں اور اقدامات سے
پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرنے پر توجہ نظر نہیں آتی۔معیشت کے حوالے سے
یہ تاثر بالکل واضح ہوکر سامنے آرہا ہے کہ حکومت پیداواری شعبے میں کوئی قدم
اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ پنجاب کی حد تک تو اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ
وفاقی حکومت اس حوالے سے عوام کی مشکلات کم کرنے کے لئے اس لئے کچھ نہیں کررہی
کہ شاید اس کا کریڈٹ صوبے کی حکومت کو مل سکتا ہے لیکن اس طرح نااہلی اور
کارکردگی کا اثر دوسرے صوبوں پر بھی پڑ رہا ہے، جہاں حکمران جماعت کی اپنی
حکومت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یوں ایک طرح سے حکومتی نااہلی اور سیاسی
جانبداری سے پورا ملک ہی مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور نتیجہ یہ
ہے کہ تعمیر و ترقی کا کوئی کام نہیں ہو رہا۔ عوام حکومت کی ناکارکردگی اور
نااہلی کو پوری شدت کے ساتھ محسوس کررہے ہیں اور انتخابات میں اس کا نتیجہ بھی
سامنے آ سکتا ہے۔ حکمراں اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ "جمہوریت بہترین
انتقام ہے" ۔حکومت کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے، سیاسی مخالفین سے الجھنے کے
بجائے عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینی چاہئے اور سیاسی شہادت وغیرہ کی
کوشش کرنے کے بجائے اپنی کارکردگی کے بل پر انتخابات میں جانا چاہئے۔انہوں نے
ایک سوال کے جواب میں مزید کہا کہ حکمرانوں کا طرز عمل ان کے ان دعووں کی نفی
کرتا ہے کہ وہ بیرونی دباوکو قبول نہیں کریں گے انہیں اس دباو کو مسترد کرتے
ہوئے وسیع تر قومی اور ملکی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فوری اقدامات کرنا
ہوں گے ورنہ توانائی کا بحران قومی معیشت کا دیوالیہ نکال دے گا اور امریکہ
سمیت کوئی ملک ہماری مدد کے لئے آگے نہیں بڑھے گا۔انہوں نے اس حوالے مزید
روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گیس کے بحران نے ایک طرف گھریلو صارفین، اور ملکی
صنعتوں کے لئے مشکلات پیدا کی ہیں تو دوسری طرف حکومت گیس و بجلی کی قیمتوں
میں مسلسل اضافے کے ذریعے عوام سے زندہ رہنے کا حوصلہ چھیننے کی کوشش کر رہی
ہے۔ انہوں نے آخر میں اپنی گفتگو سمیٹتے ہو ئے کہا کہ بے روزگار افراد کی
تعداد میں اضافہ اور غربت و افلاس کا بڑھتا ہوا گراف ملک کے لئے سنگین مسائل
پیدا کرے گا۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور
رہی سہی صنعتیں بھی بندش کا شکار ہوجائیں گی۔ یہ صورتحال حکومت کی ناکامی ،
عوامی مسائل میں اس کی عدم دلچسپی اور ناقص منصوبہ بندی کو ظاہر کرتی ہے جس نے
حکمرانوں پر عوام کے رہے سہے اعتماد کوبھی متزلزل کرکے رکھ دیا ہے۔ اے پی ایس
http://apsnewsagency.blogspot.com/feeds/posts/default?alt=rss

///////////////////////////////////////////
حکومت،آئین اور قانون۔چودھری احسن پر یمی

Posted: 31 Dec 2011 12:23 AM PST
http://feedproxy.google.com/~r/blogspot/PZgq/~3/k8TdUUg9rCE/blog-post_31.html?utm_source=feedburner&utm_medium=email

سابق چیف جسٹس پاکستان سعید الزماں صدیقی نے پاکستان میں انسانی حقوق کے نام
پر کام کرنے والی غیر ملکی تنظیم کی جانب سے پاکستانی ریاستی اداروں خصوصاً
اعلیٰ عدلیہ کی سا لمیت پر حملے پر شدید تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ کسی کو بھی
ریاستی اداروں کی سا لمیت اور حرمت پر حملے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہیومن
رائٹس واچ کی جانب سے میمو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر متنازع بیان پر
ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس (ر) سعیدالزماں صدیقی نے کہا کہ اس تنظیم کے
جاری کردہ پریس ریلیز میں جو جملے استعمال کئے گئے ہیں وہ پاکستان کے اندرونی
معاملات میں براہ راست مداخلت ہے اور کسی بھی تنظیم یا ادارے کو اس سطح پر
تبصرے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے کہا سپریم کورٹ کو ایسے گھناو ¿نے
حملے اور خصوصاً امریکی امداد سے چلنے والے ادارے کے بیان کا فوری نوٹس لینا
چاہئے۔ واضح رہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ عمومی تاثر ہے
کہ عدلیہ سول حکومت کے خلاف امتیاز برت رہی ہے۔ بیان میں عدلیہ اور فوج پر
شدید حملے کئے گئے ہیں۔ د ریں اثناءایچ آر ڈبلیو، (جس نے بیان جاری کیا ہے) کے
پاکستان میں ڈائریکٹر علی دایان حسن نے کہا کہ گزشتہ چند روز کے دوران ان کی
صدر آصف زرداری یا ان کے کسی ساتھی سے ملاقات نہیں ہوئی ہے ان کا کہنا تھا کہ
پریس ریلیز جاری کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے کسی نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا
میری تنظیم نے پاکستان میں انسانی حقوق، جمہوریت اور آئین کے درپیش خطرات کے
پیش نظر یہ بیان جاری کیا ہے۔ غیرجانبدار اور معروضی ہونے کا تاثر رکھنے والی
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ جمعہ کو پاکستان کی اعلیٰ
عدلیہ کیخلاف انتہائی قابل اعتراض اور جانبدارانہ پوزیشن اختیار کی اور میمو
گیٹ کے معاملے میں خود بھی متنازع طور پر کود پڑی۔ ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان
ڈائریکٹر علی دایان حسن نے اپنے بیان میں میمو گیٹ کیس پر عدالتی کمیشن تشکیل
دیئے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہا کہ میمو گیٹ میں تمام فریقین کو یہ سمجھنا
چاہئے کہ ایک قانونی تنازع کو پارلیمانی اور صدارتی اختیارات کو گھٹانے اور
سول حکمرانی کو اکھاڑ پھینکنے کا ذریعہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اس انتہائی متنازع
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام ریاستی اداروں کو اپنے آئینی دائرہ کار
میں رہتے ہوئے قانونی سول حکمرانی کی مدد کیلئے کام کرنا چاہئے۔ بیان میں یہ
بھی کہا گیا ہے کہ عدلیہ کو کسی بھی فریق کی جانب سے امتیازی سلوک کے تاثر کو
ختم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ جبکہ قومی سلامتی اب صرف اور صرف
فوج کی ذمہ داری نہیں رہی اور نہ ہی اس کی دیکھ بھال چند مخصوص افراد کا بلا
شرکت غیر فریضہ ہے۔ قومی سلامتی کو مو ¿ثر طریقہ سے یقینی بنانے کے لیے ضروری
ہے کہ دفاعی حکمت عملی سے متعلق ایک ایسا ڈھانچہ وضع کیا جائے جو ملک کی دفاعی
قوت کے تمام عناصر پر مشتمل ہو۔ان خیالات کا اظہار چیئرمین جوائنٹ چیفس آف
سٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں نے گزشتہ جمعہ کو اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس
یونیورسٹی کی تیرہویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کی تقسیم اسناد کی تقریب کے
شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔جبکہ سپریم کورٹ نے میمو اسکینڈل سے متعلق آئینی
درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکن
عدالتی کمیشن قائم کر دیا ہے۔عدالت عظمٰی نے سنائے گئے اپنے مختصر فیصلے میں
کہا کہ درخواست گزار اپنا یہ موقف ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ میمو سے متعلق
معاملات کی تحقیقات عوامی اہمیت کی حامل ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی
سربراہی میں عدالت کے نو رکنی بنچ نے درخواست گزاروں کی استدعا پر اس مراسلے
کا نقطہ آغاز، اس کی صداقت اور اسے تحریر کرکے قومی سلامتی کے لیے سابق امریکی
مشیر جیمز جونز کے توسط سے ایڈمرل مائیک ملن کو پہنچانے کے مقصد کی تحقیقات کا
حکم بھی جاری کیا۔یہ تحقیقات تین رکنی عدالتی کمیشن کرے گا جس کے سربراہ
بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فیض عیسیٰ ہوں گے جبکہ دیگر اراکین میں
سندھ ہائی کورٹ اور اسلام اباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان شامل ہیں۔کمیشن
کو موجودہ قوانین کے تحت اندرون ملک اور پاکستان سے باہر مراسلے سے متعلق
شواہد اکٹھے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اوروہ تمام فریقین کو اپنا بھرپور موقف
پیش کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ عدالت عظمیٰ نے تین رکنی عدالتی کمیشن کو اپنا
کام چار ہفتوں میں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔عدالت عظمی نے سابق سفیر حسین
حقانی پر پاکستان سے باہر جانے کی پابندی بھی برقرار رکھی ہے۔اس مقدمے میں
حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر تھیں، جنھوں نے عدالت کے فیصلے کے بعد
صحافیوں سے گفتگو میں فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کی۔"میں
سمجھتی ہوں کہ عدلیہ کے لیے آج تاریخ کا ایک سب سے تاریک دن ہے … جس نے قومی
سلامتی کو بنیادی حقوق پر فوقیت دی ہے۔"ان کے بقول عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے
پاکستان میں سیاسی حکومت کے مقابلے میں فوج کی برتری ثابت کی ہے۔ "آج میں
سمجھتی ہوں کہ سویلین اتھارٹی، عسکری اتھارٹی کے نیچے آ گئی ہے۔"سپریم کورٹ نے
اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ میمو کیس میں منصور اعجاز کی طرف سے داخل کردہ
جواب کے ساتھ بہت سی دستاویزات بھی نتھی کی گئیں جن میں سابق سفیر حسین حقانی
کے ساتھ بلیک بیری کے ذریعے ا ±ن کے پیغامات کے تبادلے شامل ہیں اور جو اس امر
کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ دونوں اشخاص 9 سے 12 مئی کے دوران مسلسل رابطے میں
تھے۔فیصلے میں عدالت نے کہا کہ درحقیقت نا صرف اس عرصے میں دونوں کے درمیان 85
بلیک بیری پیغامات، ٹیلی فون رابطے اور ای میل پیغامات کا تبادلہ کیا گیا بلکہ
منصور اعجاز کا دعویٰ ہے کہ 28 اکتوبر اور یکم نومبر کو بھی انھوں نے حسین
حقانی کے ساتھ رابطہ کیا۔"اس بنا پر انصاف کا تقاضا ہے کہ ان رابطوں کی صداقت
جاننے کے لیے اٹارنی جنرل وزارت خارجہ کے توسط سے کینیڈا میں مقیم ریسرچ اِن
موشن نامی کمپنی سے ان پیغامات کی تصدیق حاصل کریں کیونکہ تمام تفصیلات اسی
کمپنی کے پاس ہوتی ہیں۔"حکومت پاکستان نے مئی میں امریکی قیادت کو بھیجے گئے
میمو کو 'کاغذ کا ٹکڑا' قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے آئینی درخواستوں کو
مسترد کرنے کی استدعا کی تھی۔آئینی درخواستوں میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق
پرویز کیانی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کو
بھی فریق بنایا گیا ہے، اور ان فوجی قائدین نے عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے
جوابات میں کہا ہے کہ میمو ایک حقیقت ہے جس کی تحقیقات ہونی چاہیئں۔مبینہ طور
پر صدر آصف علی زرداری کی ایما اور اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین
حقانی کی ہدایت پر لکھے گئے میمو میں پاکستانی فوج کی طرف سے ممکنہ بغاوت کو
ناکام بنانے کے لیے عسکری قیادت کی برطرفی میں امریکہ سے مدد طلب کی گئی
تھی۔میمو اسکینڈل پر وفاق اور ملک کی عسکری قیادت کے متضاد موقف کی وجہ سے
سیاسی حکومت اور فوج کے طاقتور ادارے کے درمیان بظاہر کشیدگی پائی جا رہی
ہے۔جبکہ میمو اسکینڈل کے مرکزی کردار امریکی تاجر منصور اعجاز نے سپریم کورٹ
کی جانب سے میمو اسکینڈل کی تحقیقات کے لئے تین چیف جسٹس پر مشتمل تحقیقاتی
کمیٹی تشکیل دینے کا خیرمقدم کیا ہے اور میڈیا و دیگر لوگوں کو انتباہ کیا ہے
کہ ان کی کردار کشی کی مہم بند کردی جائے جو وہ گزشتہ کچھ عرصے سے کررہے ہیں۔
ایک بیان میں منصور اعجاز کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس بات کا
بھرپور اظہار ہے کہ میں نے جو سچ بولا اور آپ کے ملک کو سینئر لیڈروں کو
پہنچایا وہ حقیقی ہے اورجامع تحقیقات کا متقاضی تھا۔ منصور اعجاز نے بتایا کہ
انہوں نے اپنے و کلاءکو ایک پاکستانی اخبار پر ہتک عزت کا مقدمہ کرنے کی ہدایت
کردی ہے تاہم انہوں نے اخبار کا نام نہیں بتایا۔ انہوں نے اپنے اس وعدے کا
اعادہ کیا کہ وہ کسی بھی اعلیٰ سطح، آزاد اور قابل بھروسہ تحقیقات میں تعاون
کریں گے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی اعلان کردہ تحقیقاتی کمیٹی سے مکمل اور شفاف
تعاون کایقین دلایا منصور اعجاز نے بتایا کہ ان کے وکلاءکی ٹیم نے میری ذات،
میرے کاروبار اور میرے اہل خانہ کے متعلق نازیبا اور زہرآلود زبان استعمال کئے
جانے اور مسلسل ملنے والی دھمکیوں کا نوٹس لیا ہے میں نے اب تک اپنے خلاف اس
نازیبا مہم کو نظرانداز کیا کیونکہ جو سچ، جو حقائق، جو شہادتیں میرے پاس ہیں
وہ پاکستانی پریس کے رویہ سے تبدیل نہیں ہوسکتے۔ حسین حقانی کے قانونی مشیر
اور پاکستان کے بعض سیاسی عناصر ان حقائق کے خلاف بول سکتے ہیں مگر سچ اور
حقائق کو چھپانے کی کوششیں ناکام ہوگئیں میں اب مزید اپنے خلاف حملے برداشت
نہیں کروں گا اور اپنے وکلاءکو ایک ادارے کے خلاف قانو نی کارروائی کرنے کی
پہلے ہی ہدایت کردی ہے اور آئندہ اپنی ذات کے خلاف کسی بھی رائے، تجزیہ اور
نازیبا گفتگو پر کسی بھی شخصیت، نیوز ادارے چاہے وہ ٹی وی چینل ہو یا اخبار یا
ادارتی عملہ کو قانونی نوٹس جاری کیا جائے۔سابق وفاقی وزیر قانون اور پاکستان
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر بابر اعوان نے میمو گیٹ اسکینڈل سے متعلق
آئینی درخواستوں کے قابل سماعت قرار دیئے جانے اور جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کے
بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظرثانی کی
گنجائش موجود ہے۔ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اس پر نظرثانی کی
درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا،میمو ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا اس جیسے سو
خط بھی ہوں تو تب بھی ملک کی سلامتی اور سالمیت کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
پیپلز پارٹی کے نائب صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد لاہور پہنچنے پر میڈیا سے
گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کا خط سے کوئی تعلق نہیں ملک میں
جمہوریت کو مکمل آزادی حاصل نہیں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جا رہا بلکہ وہ
رینگ رہی ہے عوام کے مسائل حل کرنے نہیں دیئے جا رہے نان ایشو اٹھائے جا رہے
ہیں حکومت کے بہت سے عوامی فلاح کے منصوبوں کو مکمل نہیں کرنے دیا جا رہا ہے
عوام کا پرسان حال کوئی نہیں ہے سب جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں درخواست کس کی
فرمائش پر دائر کی گئی۔ جبکہ پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے میمو
اسکینڈل کی تحقیقات کے سلسلے میں سابق سفیر حسین حقانی، خفیہ ایجنسی آئی ایس
آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا اور اس معاملہ کے مرکزی کردار
منصور اعجاز کو طلب کیا ہے۔سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں ہونے والے کمیٹی
کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تینوں افراد کو 10 جنوری تک بلایا جائے گا۔رضا
ربانی نے بتایا کہ پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز کی کمیٹی کے اجلاس
میں شرکت یقینی بنانے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ وزیر اعظم
یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر پارلیمانی کمیٹی امریکی قیادت کو بھیجے گئے
متنازع میمو یا خط کے معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔حسین حقانی اور خود حکومت
مبینہ طور پر صدر آصف علی زرداری کی ایما پر لکھے گئے خط سے لاتعلقی کا اظہار
کر چکے ہیں، لیکن ملک کی عسکری قیادت کے بقول میمو ایک حقیقیت ہے اور اس کی
تحقیقات ضروری ہیں۔حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز
شریف سمیت کئی افراد نے اس معاملے کی تحقیقات کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں
آئینی درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں۔جبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف
چوہدری نثار نے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کی موجودگی سے متعلق وزیر اعظم کا
بیان عالمی سطح پر فوج کیخلاف چارج شیٹ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ جو
پاکستان کے گلے پڑ سکتا ہے ، وزیراعظم اس حوالے سے وضاحت کریں ریکارڈ پر یہ
بات لائیں اور اپنا بیان واپس لینے سمیت قومی اسمبلی کی کارروائی سے حذف کیا
جائے ، نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجلی، گیس بحران
پر متعلقہ وزراءاپنی کوتاہی تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہو جائیں، حکومت گیس بحران
پر ڈرافٹ تیار کر کے پیر کو ایوان میں بحث کرائے۔ مفرور وزیرپٹرولیم ڈاکٹر
عاصم کو ایوان کے سامنے پیش کیا جائے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عوام
کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ ہم اس اسمبلی کو بامقصد بناکر آگے
کی طرف لے کر بڑھیں۔ ہمارے کسی رکن کی جانب سے سی این جی بند کرنے کی تجویز
قطعاً پارٹی کا موقف نہیں ہے۔ عام صارفین کو 10.10 ہزار کے بلز بھجوائے جارہے
ہیں۔ کیا کسی کا احتساب ہو گا کوئی پارلیمنٹ کو جواب دہ ہو گا۔ پارلیمنٹ کو
احتساب کرنے دیں ۔ اسمبلی کا آخری سال ہے کچھ تو تقدس رہنے دیں ۔منتخب
پارلیمنٹ کو بے مقصد بے معنی بنانے کی وجہ سے پرویز مشرف حکومت سے تعلق رکھنے
والوں کو متحرک ہونے کا موقع ملا ۔جاوید ہاشمی کو مناسب عہدہ نہ دینے پر ہم پر
تنقید کی جاتی ہے ،وزارتیں نااہل لوگوں کو دی جارہی ہیں، ہم اسپیکر اور ڈپٹی
کا احترام کرتے ہیں۔ گزشتہ روز جاوید ہاشمی کے خطاب کے حوالے سے بات حکومتی
ارکان کیلئے کی تھی، ہمیں بھی مخدوم جاوید ہاشمی کی طرح شاہ محمود کی تقریر
سننے کی خواہش تھی لیکن انہیں کوشش کے باوجود موقع نہیں دیا گیا۔جبکہ وزیراعظم
سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ صدر زرداری اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز
کیانی کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہیں، حکومت مستحکم ہے، اقتدار کیلئے قبل از
وقت انتخابات کا مطالبہ پرانا حربہ ہے تمام جماعتیں متفق ہیں کہ حکومت کو 5
سال پورے کرنے چاہئیں، جلد انتخابات کا کوئی امکان نہیں،راتوں رات بننے والی
پارٹیاں جلد ختم ہو جاتی ہیں، ملکی پالیسیاں بنانا فرد واحد کا کام نہیں،
حکومت آئین و قانون کے مطابق کام کر رہی ہے، سرائیکی صوبہ پیپلزپارٹی ہی
بنائیگی، بھٹو کے فلسفے پر چلنے والوں کو فصلی بٹیروں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں،
پی پی کارکنوں کو ترقیاتی منصوبوں میں 5 فیصد کوٹہ ملے گا۔ وہ گزشتہ روز ملتان
میں صحافیوں سے بات چیت میں وزیراعظم نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت سرائیکی
عوام کے حقوق کی جنگ قومی اور صوبائی اسمبلی میں لڑے گی۔ پیپلز پارٹی کے دور
حکومت میں ناانصافیاں ختم کرنے کی کوشش کی گئیں، جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ عوام
کو ان کے حقوق نہ ملیں وہ حکومت کی ٹانگ کھینچنے کی کوشش کررہے ہیں ہم انکی
سازشیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے جو لوگ عوام کے حقوق کے خلاف سازش کریں گے
کروڑوں عوام اسے مسترد کردیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کے
بارے میں قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی سفارشات تیار کر رہی ہے۔ یہ
سفارشات پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں گی اور پارلیمنٹ میں اتفاق رائے حاصل کرنے
کے بعد اس بارے میں پالیسی وضع کی جائے گی۔ آئندہ تمام پالیسیاں پارلیمنٹ
بنائے گی، فرد واحد کے فیصلے نہیں ہوں گے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتر پیش
رفت ہو رہی ہے، ہم افغان مسئلہ کا بھی پائیدار حل چاہتے ہیں کیونکہ مستحکم
افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہو گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ
سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے ہم اتفاق رائے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اس حق
کیلئے صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں علم بلند کیا جائے گا۔


--

Rizwan Ahmed Sagar
Bhalwal(Sargodha)
03458650886/03006002886
Email.sagarsadidi@gmail.com
http://sargodhatv.blogspot.com/
http://bhalwalnews.blogspot.com
http://urduartical.blogspot.com <

COLUMN 31, DECEMBER'2011

Thursday, December 29, 2011

COLUMN 28 DECEMBER'2011



---------- Forwarded message ----------
From: KASHIF CHATHA <kashif.chatha74@gmail.com>
Date: Wed, Dec 28, 2011 at 7:55 AM
Subject: **JP** AAJ K COLUMN 28 DECEMBER'2011
To: Shoukat Zafar <alabad_skp@yahoo.com>


ASSALAAM-O-ALAIKUM
AUR
SUBAH BAKHAIR.

 

Kashif Chatha
Sheikhupura

--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197



--
Rizwan Ahmed Sagar
Bhalwal(Sargodha)
03458650886/03006002886
Email.sagarsadidi@gmail.com
http://sargodhatv.blogspot.com/
http://bhalwalnews.blogspot.com
http://urduartical.blogspot.com <

 


Wednesday, December 28, 2011

متنازع میمو:سول و عسکری قیادت میں تناو۔چودھری احسن پر یمی

///////////////////////////////////////////
متنازع میمو:سول و عسکری قیادت میں تناو۔چودھری احسن پر یمی

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر اسمبلیاں اپنا کام احسن طریقے
سے کر رہی ہوتیں تو میمو جیسے معاملات کو سپریم کورٹ میں نہ لایا جاتا۔گزشتہ
بدھ کو سپریم کورٹ میں متنازع میمو سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ جس طرح کرائے کے بجلی گھروں، ریلوے
اور دیگر اداروں سے متعلق معاملات سپریم کورٹ میں لائے گئے اسی طرح اس میمو سے
متعلق بھی حقائق کو چھپانے نہیں دیا جائے گا۔ سماعت کے موقع پر امریکہ میں
پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے ان درخواستوں کے
ناقابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی عسکری قیادت اور
حکومت میں تناو پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے متنازع میمو کے اصل حقائق سامنے
نہیں آ سکتے ہیں۔عاصمہ جہانگیر نے مزید کہا کہ ان کے موکل کو قربانی کا بکرا
بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس میمو سے متعلق تحقیقات کے لیے قومی سلامتی
سے متعلق پارلیمان کی کمیٹی ہی اصل فورم ہے اور اس میمو سے متعلق تحقیقاتی
کمیٹی پر عدم اعتماد دراصل پارلیمان پر عدم اعتماد ہے۔بینچ میں موجود جسٹس
جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اس متنازع میمو کی پارلیمان سے تحقیقات کے لیے
وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے خط لکھا جو خود اس پارلیمان کو کم تر کرنے کے
مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم بھی پارلیمان کو ڈکٹیشن نہیں دے
سکتے۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ان کا موکل اس پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش
ہونے کو تیار ہے اور وہاں سے ان کے موکل کی داد رسی نہیں ہوتی تو پھر سپریم
کورٹ سے رجوع کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات سے وہ حقائق
سامنے نہیں آ سکتے جو پارلیمان کی تحقیقاتی کمیٹی سے سامنے آ سکتے ہیں جس پر
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں حقائق کو چھپانے نہیں دیا جائے گا۔چیف
جسٹس کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اس میمو کے وجود کے بارے میں
کہا ہے اور تمام متعلقہ افراد اس کی تحقیقات چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاق
نے بھی اپنے بیان حلفی میں اس میمو کی تردید نہیں کی جبکہ صدر نے اس میمو سے
متعلق ابھی تک جواب داخل نہیں کروایا۔عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ میمو ایک
سیاسی معاملہ ہے اور کسی بھی معاملے کے سیاسی اور غیر سیاسی ہونے میں بڑا
باریک فرق ہے اس لیے اس کی سماعت سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔چیف
جسٹس کا کہنا تھا کہ جب کوئی معاملہ ملکی سلامتی سے متعلق ہو تو وہ کیسے سیاسی
ہو سکتا ہے۔حسین حقانی کی وکیل کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالت
درخواست گزاروں کے موقف سے پہلے ہی متاثر نظر آتی ہے اور ایسی صورت میں انہیں
اپنی درخواست میں تعصب کا الزام بھی لگانا پڑے گا۔عاصمہ جہانگیر نے اس موقع پر
کہا کہ عدالت وفاق اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع
پاشا کو میمو سے متعلق سرگرمیاں بتانے کا حکم دے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی
کے ڈائریکٹر جنرل نے عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں غیر ملکی اخبار
اور غیر ملکی صحافی کو تو فریق بنایا ہے لیکن اس تنازع کے مرکزی کردار منصور
اعجاز کو فریق نہیں بنایا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ عدالت اس معاملے کی چھان بین
کرے کہ احمد شجاع پاشا نے امریکی شہری منصور اعجاز سے کب کہاں اور کیوں ملاقات
کی۔سپریم کورٹ نے عاصمہ جہانگیر سے کہا کہ وہ انتیس دسمبر تک اپنے دلائل مکمل
کر لیں جبکہ اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق کا کہنا تھا کہ وہ وفاق کی طرف سے
مزید دلائل دینا چاہتے ہیں۔واضح رہے کہ مذکورہ سماعت سے ایک روز قبل سپریم
کورٹ میں متنازع میمو کے مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل مولوی انوار
الحق نے کہا تھا کہ وفاق کے نزدیک میمو صرف ایک کاغذ کا بے وقعت ٹکڑا ہے اور
اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔گزشتہ منگل کو سماعت کے موقع پر انہوں نے عدالت سے
دوبارہ درخواست کی وہ اس سلسلے میں دائر درخواستیں مسترد کر دے۔جبکہ پاکستان
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ انہوں نے متنازعہ میمو
سکینڈل کے سلسلے میں کسی ذاتی سیاست یا فائدے کی خاطر نہیں بلکہ ملک و قوم کے
مفاد میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکٹھایا ہے۔میاں نوازشریف نے گزشتہ بدھ کو
پشاور میں مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا کی صوبائی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر
رہے تھے۔میا ں نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ ایک نئے پاکستان کے قیام کے لیے
جدوجہد کا آغاز کر رہے ہیں اور اس میں پشتون ان کا ساتھ دیں۔انہوں نے کہا کہ
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پشتونوں کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے، قبائلی علاقے تباہ
ہوئے ہیں، پینتیس ہزار لوگ ہلاک اور ساٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے
پشتونوں کو ان کے اس صبر و ہمت پر سلام پیش کیا۔مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا
تھا کہ موجودہ حکمرانوں نے ملکی پالیسوں کو تبدیل کرنے کی بجائے مشرف کی
پالیسوں کو جاری رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک کی خودمختاری بری طرح پامال ہو
رہی ہے۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اپنے ہی ملک سے ڈرون حملے ہو
رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'حکمرانوں کی جانب سے ڈرون حملوں کی مزمت بھی کی
جاتی ہے لیکن حکومت صوبہ بلوچستان سے اڑنے والے ڈرون طیاروں کو روک نہیں
سکتی۔'نواز شریف نے مزید کہا کہ مہران بیس پر ہونے والے حملے کے بارے میں
تاحال کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں انہوں نے پوچھا کہ 'یہ حملہ کس طرح ہوگیا
اور کون لوگ اس میں ملوث تھے؟' انہوں نے کہا کہ اس حملے کے باعث ملک کو کروڑوں
روپے کا نقصان ہوا۔انہوں نے کہا کہ 'ہم نے اس واقعہ کی انکوائری کی بات کی
لیکن ابھی تک کوئی انکوائری نہیں ہوئی اور اسی طرح سانحہِ مشرقی پاکستان کی
انکوائری بھی سردخانہ میں پڑی ہے جبکہ بے نظیر بھٹو کے قتل اور کارگل کے ایشو
کی انکوائری رپورٹ بھی قوم کے سامنے نہیں لائی گئی۔'دریں اثناءمسلم لیگ صوبائی
کونسل کے اجلاس میں سابق وزیراعلی پیر صابر شاہ اور رحمت سلام خٹک کو
بلامقابلہ مسلم لیگ خیبر پختون کے صدر اور جنرل سیکرٹری منتخب کرلیا گیا
ہے۔جبکہ امریکی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز اسلام آباد میں تعینات
امریکی افسر نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی رپورٹ پاکستانی بری فوج کے سربراہ
جنرل اشفاق پرویز کیانی کو پیش کی تھی۔یہ بات امریکی وزارتِ دفاع کے ترجمان
کیپٹن جان کربی نے پریس کانفرنس میں بتائی۔پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ یہ
رپورٹ جنرل کیانی کو اتوار کے روز اس لیے دی گئی تاکہ ان کو اس رپورٹ کے بارے
میں علم ہو جب یہ رپورٹ منظرِ عام پر لائی جائے۔واضح رہے کہ امریکی فوج کی
سینٹرل کمانڈ نے یہ رپورٹ گزشتہ پیر کے روز ریلیز کی تھی۔جان کربی نے کہا 'ہم
چاہتے تھے کہ جنرل کیانی اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ ہوں۔اخبار'واشنگٹن پوسٹ'
کےمطابق دہشت گردی کےخلاف اوباما انتظامیہ کے کارناموں میں سب سے زیادہ نما
یاں القاعدہ کی صفوں کی صفوں کا صفایا کرنا ہے۔اخبار کہتا ہے کہ تین سال کی
مختصر مدّت میں اس نے ڈرون طیاروں کو استعما ل کرنے کے لئے ایک وسیع جال بچھا
لیا ہے جس کی مدد سے مشتبہ دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے اور غنیم پر
چوری چھپے نظر رکھی جاتی ہے۔ِاس مقصد سے، درجنوں خفیہ تنصیبات قائم کی گئی ہیں
جن میں مشرقی امریکی ساحل پر دو مرکز شامل ہیں۔ اس کے جنوب مغربی علاقے میں
ایسے مرکز ہیں جنہیں عملی طور پر ائیر فورس کے کاک پٹ کہا جا سکتا ہے۔ اس کے
علاوہ دو برّ اعظموں کے کم از کم چھ ملکوں میں خفیہ اڈّے قائم ہیں۔'واشنگٹن
پوسٹ' کہتا ہے کہ صدر اوباما سے پہلے کسی صدر نے قومی سلامتی کے مقاصد کی
پیروی میں اتنے وسیع پیمانے پر افراد کو ہلاک کرنے کے لئے خفیہ طریقوں کا
سہارا نہیں لیا۔ڈرون طیاروں کےاستعمال میں اتنی تیزی آئی ہے کہ اِس کے نتیجے
میں سی آئی اے اور فوج کے درمیان حد ِفاصل کا وجود مٹتا جا رہا ہے۔ ان خفیہ
کاروائیوں کو حسب ضرورت زیادہ سے زیاد ہ بروئے کار لایا جارہا ہے، اور
ہتھیاروں اور عملے کو اس طرح یک جا کیاجارہا ہے تاکہ وہائٹ ہاوس ان الگ الگ
قانونی اداروں سے رابطےمیں رہے جنہیں اِس طرح ہلاک کرنے کی اجازت دینے کا
اختیار ہے۔یمن کی مثال دیتے ہوئے اخبار کہتا ہے کہ وہاں سی آئی اے اور فوج کی
سپیشل اوپریشنز کمان نے ایک ہی د ±شمن کو ایک ہی قسم کے طیاروں سے نشانہ
بنایا۔ ان حملوں میں اس سال ہلاک ہونے والوں میں تین امریکی شہری بھی تھے جن
میں سے دو پر القاعدہ کے کارکن ہونے کا شبہ تھا۔صدر اوباما کی پہلی میعاد کا
ابھی ایک سال باقی ہے اور ان کی انتظامیہ ناقابل تردید دعوے کر سکتی ہے۔
اوساما بن لادن کو ٹھکانے لگا دیا گیا ہے، القاعدہ نیٹ ورک اب شکست کے دہانے
پر پہنچ چکا ہے اور اس کے علاقائی اتّحادیوں کے ارکان اب آسمان کے تارے گن رہے
ہیں۔اخبار کہتا ہے کہ جب2009 ءمیں صدر اوباما نے حلف اٹھایا تھا تو اس وقت
ڈرون طیاروں کا استعمال صرف ایک ملک یعنی پاکستان میں ہوتا تھااور جہاں پانچ
سال کے دوران 44 ڈرون حملوں میں لگ بھگ 400 افراد ہلاک کئے گئے تھے۔اس کے بعد
سے ان حملوں کی تعداد اب 240 تک پہنچ گئی اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد محتاط
اندازوں کے مطابق چو گنی ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اس سال ڈرون حملوں میں کمی
آئی ہے جس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ سی آئی اے وقتاً فوقتاً بحران کی صورت میں
انہیں بند کر دیتی ہے۔ پھر پچھلے ماہ ایک غیر ارادی نیٹو فضائی حملے میں 24
پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے یہ حملے بند ہیں ۔ امریکی عہدہ داروں کا
کہنا ہے کہ القاعدہ کےاہم ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کی تعداد کم ہو کر صرف دو رہ
گئی ہے۔ سابق وزیر خارجہ اور تحریکِ انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے
کہا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کے حق میں ہے اور پاکستان اور امریکہ کے
تعلقات میں بہتری کے لیے امریکہ سے مزاکرات کرنا ہوں گے۔انہوں نے کہا ہے کہ
دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم پر مسلط کی گئی تھی اور یہ جنگ ہمیں مجبوراً لڑنا پڑ
رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغرب کی جانب سے تیار کی جانے والی موجودہ حکمت
عملی عمران خان کی سوچ کے قریب ہے۔انہوں نے کہا کہ جب نیٹو فورسز افغانستان
میں داخل ہوئیں تو وہاں سے بڑی تعداد میں جنگجو پاکستان میں داخل ہوگئے جنہوں
نے ہماری حکومت کی رِٹ کو چیلنج کیا جس کی وجہ سے ہمیں کارروائی کرنی
پڑی۔انہوں نے کہا کہ اب عالمی سطح جو حکمتِ عملی بن رہی ہے وہ عمران خان کی
سوچ کے قریب ہے کیونکہ ان کا پہلے دن سے یہی کہنا تھا کہ جنگ اس مسئلے کا حل
نہیں اور وہ سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔امریکہ اور پاکستان کے درمیان
جاری موجودہ کشیدگی کے بارے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو یہ دیکھنا ہوگا کہ
ہمارا مقصدکیا ہے۔'پاکستان کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو تا کہ
پاکستان بھی پرسکون رہ سکے افغانستان میں امن کے لیے مزاکرات کرنا ہوں گے اور
مزاکرات کے لیے امریکہ کو بھی شامل کرنا ہوگا اور امریکہ کو ہماری حساسیت کا
خیال بھی رکھنا ہوگا اس لیے سب سے ضروری ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے لیے
نئے اصول و ضوابط وضع کیے جائیں۔'سیاسی میدان میں ہونے والی ہلچل اور خاص کر
مخدوم جاوید ہاشمی کے تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ
ہمارا کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے صرف ہم نے ایک دوسرے کے خلاف انتخاب لڑا ہے اور
اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔'وہ (جاوید ہاشمی) اور میں ملتان ہی کے دو مختلف
حلقوں سے منتخب ہوچکے ہیں لہٰذا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔'یاد رہے کہ شاہ محمود
قریشی نے انیس سو پچاسی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مخدوم جاوید ہاشمی کےخلاف
ملتان سے انتخابات لڑئے ہیں۔انہوں کے کہا کہ ان کی جماعت انتخابات کے لیے تیار
ہے اور انتخابات جتنی جلدی ہوں اتنا ہی اچھا ہے۔ایک سوال پر کے ان کی جماعت نے
انتخابات کا ابھی تک مطالبہ نہیں کیا ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی تو
پارلیمان میں کوئی نشست نہیں ہے اس لیے انہوں نے نون لیگ سے کہا تھا کہ اگر وہ
انتخابات کروانا چاہتے ہیں تو اسمبلیوں سے استعفٰی دے دیں تاکہ حکومت انتخابات
کے لیے مجبور ہوجائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے موجودہ اسمبلیاں ویسے بھی
اپنی افادیت کھو چکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی کے جلسے کے بعد اب ان کی
پہلی ترجیح اندرونِ سندھ تحریکِ انصاف کو منظم کرنا ہے اور
اس کے لیے سندھ کے دیگر کئی شہروں میں جلسے بھی کریں گے۔پرویز مشرف کی جماعت
آل پاکستان مسلم لیگ سے تحریکِ انصاف کی قربتوں اور مبینہ اتحاد کے بارے میں
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف پاکستان کے شہری ہیں اور ان پرسیاست میں حصہ لینے
پر کوئی قانونی قدغن نہیں ہے مگر ان کی جماعت نے ابھی تک کسی جماعت سے اتحاد
کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا اور اس کا فیصلہ وقت آنے پر ہوگا۔اے پی ایس
http://apsnewsagency.blogspot.com/feeds/posts/default?alt=rss

///////////////////////////////////////////
تاثرات اور تحفظات۔چودھری احسن پر یمی

Posted: 27 Dec 2011 07:48 PM PST
http://feedproxy.google.com/~r/blogspot/PZgq/~3/221a_CIwwUY/blog-post_28.html?utm_source=feedburner&utm_medium=email


مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں معاشی بد انتظامی اور کمزور گورننس کی ذمہ دار
80فیصد سے زائد وفاقی اور باقی کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے، کرپشن اورمعاشی
انتظامی بدحالی سے ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ
کار آنے سے گھبرا رہے ہیں ۔ مرکزی بینک کی حالیہ رپورٹ وائٹ پیپر سے کم نہیں
ہے۔یکساں احتساب کا نظام رائج کیا جائے۔جمہوری اداروں میں استحکام سے معاشی
حالات بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے اس وقت ملک میں صرف 13.4فیصد شرح سے
سرمایہ کاری ہو رہی جو کہ 1974ءکے بعد کم ترین ہے ملک معاشی ابتری کی طرف بڑھ
رہا ہے ،دور دور تک اس سے نکلنے کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔ گزشتہ 64سال سے
اگر تنقید برائے تنقید کی بجائے ،تنقید برائے اصلاح کی جاتی تو ہم ایک قوم بن
جاتے ۔ زمینی حقائق کو ایک طرف رکھتے ہوئے ،حکومتوں نے جو فیصلے ملک پر مسلط
کئے ،آج قوم ان کا بوجھ اپنے کمزور کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ اس وقت ہر شخص
دباومیں ہے۔جبکہ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ملک کی بدترین سیاسی
صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میمو اسکینڈل نہ صرف فوج
کیخلاف سازش ہے بلکہ ملک و قوم کیخلاف سنگین غداری اور قومی سلامتی پر حملہ
ہے۔ سپریم کورٹ آزادانہ تحقیقات کر کے اس اسکینڈل میں ملوث ملزموں کو کیفر
کردار تک پہنچائے۔ پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادیوں کی جانب سے عدلیہ اور فوج
کو دی جانے والی دھمکیوں اور مسلسل محاذ آرائی سے اداروں میں ٹکراو ¿ ہو گا اس
طرح پیپلز پارٹی ایک بار پھر سیاسی شہادت کی کوشش کر رہی ہے حکومت ہر لحاظ سے
ناکام ہو چکی ہے اور اس سے نجات کا وقت آ گیا ہے۔یہ بات جماعت اسلامی کی مرکزی
مجلس شوریٰ کے حالیہ ہونے والے اجلاس میں متفقہ قرار داد میں کہی گئی ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مرکزی مجلس شوریٰ محسوس کرتی ہے کہ وزیراعظم نے
قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران سانحہ ابیٹ آباد پر تبصرہ کرتے ہوئے
کہا کہ ہم سے میمو کے بارے میں پوچھنے والے بتائیں کہ 6سال سے اسامہ بن لادن
کس کے ویزے پر یہاں تھا۔ ان کا یہ بیان بحیثیت وزیراعظم اٹھائے گئے اپنے حلف
کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور اپنے ملک کے اداروں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے
کی کوشش ہے۔ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے اور اب مزید چند
مہینوں میں کیا کرے گی۔ اس لئے ایک غیر جانبدار عبوری انتظامیہ اور ایک با
اختیار الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی الیکشن کا اعلان کیا جائے تاکہ قوم اپنے
مسائل کے حل کے لئے نئی قیادت کا انتخاب کر سکے۔ مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس یہ
بھی واضح کرتا ہے کہ حکومت کی ناکامی کا بہانہ بناکر اگر کسی غیر جمہوری غیر
آئینی اقدام کی کوشش کی گئی تو اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔قرار داد
میں کہا گیا ہے کہ یہ حکومت ہماری تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے۔ اور حکمرانوں
کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس حکومت کی اصل دلچسپی این آر او کے ذریعے
اپنے ماضی کے مالیاتی و سیاسی جرائم سے فراغت حاصل کر کے امریکا کے ایجنڈے کو
آگے بڑھانا ہے یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف کی جاری کردہ داخلی و خارجی پالیسیوں
میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ امریکا کی نام نہاد دہشتگردی کی جنگ میں شمولیت
کو جاری رکھ کر ملک کو سیاسی و معاشی طور پر تباہ کر دیا گیا۔قرار داد میں کہا
گیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے اصل مجرموں اور اس جرم کے معاون کو کیفر
کردار تک پہنچانے میں اس حکومت نے جو انہی کے خون کی بدولت اقتدار میں آئی،
کوئی موثر کارروائی نہیں کی ہے۔ اس دعوے کے باوجود کہ اصل مجرموں کو صدر صاحب
جانتے ہیں ، ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی
رپورٹ پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ ملک میں توانائی کا بحران اپنی انتہا کو پہنچ
گیا ہے۔ عوام بجلی ، گیس اور پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں۔ اس کے
باوجود یکم جنوری سے گیس کی قیمت میں چودہ فیصد اضافہ اور تیل کی قیمتوں میں
بھی مزید اضافہ کر نے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔جبکہ محترمہ بینظیر بھٹو کی
چوتھی برسی کے موقع پر پیپلزپارٹی ضلع جعفر آباد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے
زنجیروں میں جکڑے20 نوجوانوں نے خود سوزی کی کوشش کی جنہیں بچا لیا گیا۔ ادھر
اوچ شریف میں پی پی کے کارکن نے گلے میں رسی ڈل کر خودکشی کرلی۔تفصیلات کے
مطابق محترمہ بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی کے موقع پر ضلع جعفر آباد بلوچستان سے
تعلق رکھنے والے زنجیروں میں جکڑے بیس نوجوانوں نے خود سوزی کی کوشش کی جنہیں
بچا لیا۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نوجوانوں نے پیپلز پارٹی
بلوچستان کے صدر صادق عمرانی اور حکومت بلوچستان پر سنگین الزمات عائد کرتے
ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت اور بلوچستان پیکیج کے تحت ملنے والی دس ہزار
ملازمتوں میں سے پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکنان کو نظر انداز کیا گیا ہے اور
یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن صرف روٹی، کپڑا اور
مکان اور ملازمت کے خواہش مند ہیں لیکن کارکنوں کو نہ تو یہ مراعات دی جارہی
ہیں اور نہ ہی انہیں اہمیت دی جارہی ہے جس کی وجہ سے وہ شدید احساس محرومی کا
شکار ہو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر نے کا فیصلہ کر چکے ہیں حکومت اب ہماری
لاشیں اٹھائے اور پھر انسانی حقوق کی تنظیموں کے سوالات کا جواب دینے کیلئے
تیار رہے۔ علاوہ ازیں خیر پور سے تعلق رکھنے والے محکمہ تعلیم کے چھوٹے
ملازمین نے وزیر اعلیٰ سندھ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ کیخلاف مظاہرہ کرتے ہوئے
الزام عائد کیا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے بحالی کے حکم کے باوجود انہیں ملازمت
نہیں دی جارہی ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا
ہے کہ جس میثاق جمہوریت پر شہید بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کئے اس پر
پیپلز پارٹی نے 90 فیصد عمل کیا، ہماری لیڈر شپ نے مفاہمت کی سیاست کوفروغ
دیتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا ، توقع کرتے ہیں کہ میاں نوازشریف بھی ملک کی
بہتری ، جمہوریت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے آگے بڑھیں گے ، جو فیصلے
پارلیمنٹ میں ہونے ہیں اگر ایسے فیصلوں کو عدالت میں لے کر جایا جائے گا تو
پھر اس سے میثاق جمہوریت کی توہین ہوگی، شہید بینظیر قتل میں عالمی قوتیں ملوث
تھیں اور مقامی لوگ بھی آلہ کار بنے ۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ پیپلز
پارٹی ملک میں ووٹ کے ذریعے تبدیلی چاہتی ہے کیونکہ جو تبدیلی بلٹ یا کسی اور
طریقے سے آتی ہے وہ دیرپا اور پائیدار نہیں ہوتی، اسی لئے ہم ووٹ کے ذریعے
تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی جب بھی اقتدار میں
آئی ہے عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئی ہے ہم نے پھر یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ
دیا ہے اور (ن) لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں سے یہ کہتے ہیں کہ وہ آنے والے
انتخابات کا انتظار کریں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ
بینظیر بھٹو کے قتل کا کیس عدالت میں ہے اور اس پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت
ہے ان کے قتل میں بین الاقوامی قوتیں ملوث تھیں اور مقامی لوگ بھی اس کا آلہ
کار بنے، ابھی ہم اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ عدالت میں کیس اور
تفتیش کا عمل چل رہا ہے ، نوڈیرو میں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس نہ ہونا
اعلیٰ قیادت کا فیصلہ ہے، ممکن ہے کہ پارٹی قیادت نے گڑھی خدا بخش میں شہید
بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی کی تقریبات اور اس کے جلسے کو فوکس کیا ہو۔جبکہ
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ شہید بینظیر بھٹو کے قاتلوں کے بارے
میں حکومت کی تحقیقات مکمل ہو چکی اور قتل میں ملوث چار ملزمان گرفتار ہو چکے
ہیں جبکہ 8 ملزمان روپوش ہیں، قتل کی سازش جس کمرے میں ہوئی ا?س کمرے کے فوٹو،
قاتل پشاور سے راولپنڈی کے درمیان جس جگہ قیام پذیر رہے اور انہوں نے بینظیر
بھٹو کو قتل کرنے کے بعد کہاں جا کر کس کو اطلاع دی یہ سب باتیں حکومت کو
معلوم ہو چکی ہیں، کوشش کر رہے کہ عدالت ہمیں اجازت دے کہ ہم اس تحقیقاتی
رپورٹ اور ملزمان کے بارے میں قوم کو بتا سکیں۔ گڑی خدا بخش لاڑکانہ میں
بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی کی تقریبات میں شرکت کے بعد سکھر ائیرپورٹ سے اسلام
آباد روانگی سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے رحمن ملک نے کہاکہ شہید بینظیر
بھٹو اور ان کے خاندان پر تنقید کر نیوالوں کو آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنا
چاہیے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف پاکستان آئیں انہیں
کسی نے نہیں روکا ہے ہماری حکومت ان کیخلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کر رہی
ہے بلکہ انہیں عدالت نے اشتہاری ملزم قرار دیا ہے اب وہ پاکستان آئیں گے تو
انہیں عدالت کا سامنا تو کرنا پڑیگا ۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان قائد اعظم کے
مزار پر جلسہ تو کرآئے
لیکن قائد اعظم کے مزار پر سلام کرنے نہ جاسکے،ہم نے انہیں جلسہ کرنے سے نہیں
روکا۔جبکہ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ حکومت
بی بی کے ماننے والو ں کی ہے تو اسے غریب کیلئے کچھ کردکھانا ہوگا،وہ منگل کو
بے نظیر بھٹو کی چوتھی برسی کے موقع پر جلسہ سے صدر زرداری کی خصوصی دعوت پر
ان کے خطاب کے بعد تقریر کر رہے تھے۔ اپنے جذباتی خطاب میں انہوں نے بے نظیر
بھٹو شہید کو ایک عظیم بہادر اور جرات مند قائد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ
اپنی جان کو درپیش خطرات کے باوجود مشرف کے ایمرجنسی لگانے کے بعد اسے للکارتے
ہوئے وطن واپس آئیں ' بے نظیر سے بندوق والے بھی ڈرتے تھے' بے نظیر پاکستان کی
ہر جھونپڑی اور ہر گھر میں رہتی تھیں'الیکشن قریب ہیں صدر اور وزیراعظم کو
سوچنا ہو گا کہ ہم نے عوام کیلئے کیا کیا ہے ' آج غریب عوام مہنگائی اور غربت
کے ہاتھوں بے حال ہیں اگر یہ حکومت بی بی کے ماننے والوں کی ہے تو پھر ہمیں
اپنے غریب عوام کیلئے کچھ کرنا ہو گا۔ اعتزا ز احسن نے کہا کہ ہم جہاں کھڑے
ہیں یہ جگہ شہیدوں کا قبرستان کہلاتی ہے۔انہوں نے صدر اور وزیراعظم کو مخاطب
کرتے ہوئے کہا کہ آج جب الیکشن قریب آ رہے ہیں تو ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے
عوام کو کس حد تک خوشحال کیا ہے۔ لوگ بلوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، ان میں
بچوں کی فیسیں اور گھروں کے کرائے دینے کی سکت نہیں اگر ہم بی بی کے ماننے
والے ہیں تو ہمیں ان کیلئے کچھ کرنا ہو گا۔ انہوں نے کسی کا نام لئے بغیر کہا
کہ آج ہماری آواز پوری دنیا سمیت ان ایوانوں میں گونجے گی جن ایوانوں میں بے
نظیر کے خلاف تینوں موجود ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین و صدر
مملکت آصف علی زرداری نے کہاہے کہ تمام قوتیں جمہوریت کے تابع ہیں، جیو اور
جینے دو کی پالیسی پر زندہ رہنا چاہتے ہیں، ہر قسم کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے
جمہوری انداز اپنائیں گے، ٹیلر میڈ جمہوریتیں نہیں چلتیں، دھرتی کا بیٹا ہوں،
وفاق ٹوٹنے نہیں دوں گا، بی بی کا قرض آصفہ چکائے گی، آصفہ وہاں سے علم اٹھائے
گی جہاں سے گرا تھا، وزیراعظم ہمارا ہے اور ہم اس کی عزت کرتے ہیں اسی بات
مانیں گے، وزیراعظم ڈگمگائیں گے نہیں،کونڈو لیزا رائس کی کتاب نے بی بی کا کیس
دوبارہ کھول دیا ہے، میں نے یو این او رپورٹ اس لئے مسترد کی کہ کونڈا لیزا
رائس اس کے سامنے حاضر نہیں ہوئیں، انتخابات کرسیوں کیلئے نہیں جمہوریت کیلئے
لڑیں گے، جس نے پارٹی سے جانا ہے جائے،جس سونامی کی بات لوگ کر رہے ہیں وہ
سونامی نہیں ذونامی ہے، ہم نے پختونوں اور بلوچوں کا درد محسوس کیا ہے اور
انہیں شناخت دی، تخت لاہور سے اپنا حق مانگنے والے جنوبی پنجاب کے عوام کو بھی
ان کا حق دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی
چوتھی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے
کیا۔ صد رآصف علی زرداری نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے
کہا کہ 30 سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کا کیس اٹھا رہا ہوں، لوگ آپ سے پوچھتے
ہیں کہ بی بی کیس کا کیا بنا؟ میں بھی پوچھتا ہوں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری
صاحب ! بینظیر بھٹو کے کیس کا کیا بنا؟ صدر زرداری نے کہا کہ کاش عدالتیں میرے
ماتحت ہوتیں، باقی دوسرے کیسز آپ کو نظر آرہے ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم
نے پہلے بھی ایسے اکھاڑے دیکھے ہیں۔ وقت آیا تو ہم آپ کے سامنے بھی آئیں
گے۔صدر نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ دنیا میں اقتصادی بحران ہے، پارٹی کو نیا
معاشی نظام پیش کیا ہے۔ دوسرے ممالک کے ساتھ بااثر طریقے سے کام کریں گے۔ چین،
روس اور وسطی ایشیا کے ساتھ نئے بلاک بنانے ہیں۔انہوں نے امریکا کا نام لئے
بغیر کہا کہ کوئی ہمیں ڈکٹیٹ نہ کرے، ملکی مفاد میں، جس سے ہوا، تجارت کریں
گے۔انہوں نے کونڈولیزارائس کی کتاب نے بی بی کاکیس دوبارہ کھول دیاہے۔امریکہ
کی سابق وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس سے پوچھوں گا کہ وہ بینظیر قتل کیس میں
شہادت کیوں نہیں دیتیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کے دوست ہیں کسی کیساتھ دشمنی
نہیں چاہتے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی کی جنگ میں نہیں جائیں گے۔صدر نے کہا
کہ میرے دل میں بہت کچھ بھرا ہوا ہے جو آج میں دنیا کے مسلمانوں' سیاستدانوں
اور پاکستان کے سیاستدانوں کو کہنا چاہتا ہوں۔ ہم ہیڈ لائن نہیں تاریخ بنانا
چاہتے ہیں، میں اس دھرتی کا بیٹا ہوں اور محسوس کرسکتا ہوں کہ یہاں کتنے درد
ہیں، ان میں سے ایک درد بلوچستان کا بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں بلوچستان کی
بات کرتا ہوں تو سردار نوروز خان کی شکل میرے سامنے آجاتی ہے۔ آج کے سیاستدان
جو یہ بات کرتے ہیں کہ ہم معافی مانگتے ہیں، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ کس
بات کی معافی مانگتے ہیں۔ ہر قوم کی الگ صفت ہے' بلوچ 'بلوچ میں فرق ہے، جسے
ہم سمجھتے ہیں اسلئے میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ ہم سے سیکھئے، بیٹھنے بٹھانے
اور خیالات ملانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بلوچوں کی
خدمت کی اور کرتے رہیں گے۔ جو بلوچ لڑ رہے ہیں' جیلوں سے اسلئے نہیں چھوڑا تھا
کہ آکر لڑنا ہے' لڑنا ہے تو ہم سے سیکھئے' ہم نے بارہ بارہ سال جیل کاٹی' بھٹو
سے لے کر اب تک چار شہادتیں دیں اس کے بعد گڑھی خدا بخش میں کھڑے ہوکر بات
کرنے کے قابل ہوئے' قربانیاں نہ دیتے تو آج عوام ہمیں قبول نہ کرتے۔ انہوں نے
کہا کہ ہم نے پختونوں کو ایک شناخت دی ، وعدہ کرتا ہوں کہ ان سے یہ شناخت آنے
والی نسلوں تک کوئی واپس نہیں لے سکتا۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ جنوبی
پنجاب سے آواز آرہی ہے کہ وہ تخت لاہور سے اپنا حق مانگ رہے ہیں اور کہا جارہا
ہے کہ ہمیں تخت لاہور سے آزادی دلائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت اور
پارلیمنٹ کے تابع ہیں' وزیراعظم ہمارا ہے' ہم اس کی عزت کرتے ہیں اور اس کی
بات سنتے ہیں کیونکہ جب وزیراعظم مجھ سے بات کرتا ہے تو سمجھتے ہیں کہ
پارلیمنٹ بات کررہی ہے اور ہم پارلیمنٹ کی بات سنتے ہیں ہم سنتے ہیں یہی
جمہوریت ہے ،اسی جمہوریت کیلئے ہم نے عوام کی قربانی مانگی ہے ۔ انہوں نے کہا
کہ ہم نے اپنے منشور پر عملدرآمد کیا ہے' ہم نے اس جنگ کو لڑنا ہے جس نے ہماری
بی بی ہم سے چھینی' انہوں نے کہ جمہوریت عوام کو ریلیف دے سکتی ہے اور دیتی
ہے' ہمیں مشکلات درپیش ہونے اور دنیا میں بحرانوں کے باوجود پاکستان میں روٹی'
چاول ہے اور لوگوں کو دینے کیلئے پیسہ ہے۔ یہاں دو سیلاب آئے ایک سیلاب کو
اقوام متحدہ نے سونامی قرار دیا' یہ وہ سونامی نہیں جس کی لوگ بات کررہے ہیں
وہ تو زونامی ہے۔ سیلاب آنے کے باوجود ہمارے گودام غلے سے بھرے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں آج پیپلزپارٹی کے رہنماو ¿ں اور وزراءکو ہدایت کرتا ہوں
کہ انہیں ایسے ٹی وی پروگراموں میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں جہاں سب
سیاستدانوں کو بلاکر ایک دوسرے کی ٹوپی اچھالی جاتی ہے اور بے عزتی کی جاتی
ہے' جب کسی موضوع پر بلائیں گے تو جائیں گے' اس پروگرام میں جائیں گے جس کے
کمپیئر کے کان میں کوئی آلہ نہیں لگا ہوگا اور وہ موضوع پر بات کرے گا۔ انہوں
نے کہا کہ آج حکومت کو چار سال ہوچکے ہیں۔ ہمیں جن حالات میں اقتدار ملا تھا
وہ سب کے سامنے تھا۔ آج ہم پر انگلیاں اٹھانے والوں اور ٹائیگرز سے پوچھنا
چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس ایک شخص بیٹھا ہے جو وزیر زراعت رہا ہے وہ بھی تو کچھ
نہ کرسکا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی کے جانے کا کوئی افسوس نہیں' ہمارے ساتھ
جو رہے گا ہمارے سر آنکھوں پر اور جو جائے گا وہ بھی ہمارے سر آنکھوں
پر'۔انہوں نے کہا کہ آج لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ بی بی کے کیس کا کیا ہوا؟ میں
بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے پوچھتا ہوں کہ بی بی کے کیس کا کیا بنا'
عدالتیں میرے اختیار میں نہیں' کاش! ایسا ہوتا میں نے تاریخ اور دھرتی کا قرض
ذوالفقار علی بھٹو کا کیس آپ کے پاس بھیجا ہوا ہے مگر وہ کسی کو نظر نہیں آتا
پھر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں' جج صاحب ہم آ پ کے سامنے آئیں گے آپ نے
جوکرناہے کرلینا،اگرسیاست کرنی ہے توہم جیسی کرو، نہیں کرسکتے توکوئی آسان کام
کرو آسان کام کس کوکہتے ہیں یہ الطاف بھائی بہتر بتا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ
سب کو آئین کی حدود میں رہ کر کام کرنا ہے، کسی نے بھی اپنے آپ کو آئین سے
باہر نکالا تو آئین اپنی حفاظت کرنا جانتا ہے ۔کوئی بھی ادارہ خواہ وہ الف، ب
اورج ہو، غیر آئینی کام نہیں کرسکتا ۔ صدر نے کہا کہ ہم نے اٹھارہویں ترمیم
میں بھٹو کا وعدہ پورا کردیا' ہم وفاق کو نہیں توڑیں گے' ہمارا لڑنے کا انداز
آنگ سان سوچی جیسا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک مشکل سے بنایا گیا ہے' آدھا
ٹوٹ چکا ہے اور نہیں توڑنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کونڈولیزا رائس کی نئی
کتاب نے محترمہ کا کیس دوبارہ کھول دیا ہے' میں نے اقوام متحدہ کی ریزولوشن
اسلئے مسترد کی کیونکہ کونڈولیزا رائس اس میں
پیش نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوئی موروثی سیاست نہیں' بھٹو کی
شہادت کے بعد بینظیر قیادت کیلئے مجبور ہوگئی تھیں اور سیاست میں آئیں اور
مقابلہ کرتے کرتے شہید ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں بھونچال آیا ہوا
ہے۔ آج اگر کسی کو کہوں کہ میرا غم دیکھو تو کوئی نہیں سنے گا، اسلئے ہم بارٹر
سسٹم لائیں گے۔ ترکی اور چین نے اس پر دستخط کردئیے باقی ملکوں نے بھی وعدہ
کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو ہمیشہ یہ نعرہ لگایا کرتے تھے کہ
ایک بھٹو یہاں اور ایک بھٹو تم میں ہے اور اس نعرے کی تشریح یہ ہے کہ ذوالفقار
علی بھٹو عوام کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے تھے جب وہ لوگوں کی طرف دیکھتے تھے تو
انہیں اپنا آپ دکھائی دیتا تھا۔ انہوں نے کہاکہ جمہوریت ملک میں آگئی ہے مگر
صفتیں آنے میں ابھی وقت ہے۔ درخت کو بڑا ہونے میں وقت لگتا ہے
ٹیلرمیڈجمہوریتیں نہیں چلتیں ۔ صدر نے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اے
کارکنوکبھی نہ گھبراناآگے بڑھتے رہناجب بھی مشکل وقت آیامیں سب سے آگے ہوں
گااور اپنی چھاتی آگے اورآپ کو پیچھے کروں گا میں نے ہمیشہ بی بی کوبھی کہا کہ
آپ چھوڑیں میں مقابلہ کروں گا' ہم جب بھی مقابلہ کریں گے تو ہمارا انداز
جمہوری ہوگا' ہم کرسیوں کیلئے نہیں لڑتے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت آئینی صدر
اور وزیراعظم ہیں' میرا پروٹوکول ضرورت سے زیادہ ہے مگر آئینی لحاظ سے
وزیراعظم میرا لیڈر ہے' کارکن یوسف رضا گیلانی پر اعتبار کریں جس بی بی نے مجھ
پراعتبارکیا ۔ انہوں نے کہا یہ بھی کہا گیا کہ میں طبی طور پر ٹھیک نہیں
(میڈیکلی آو ¿ٹ) ہوں' پتہ نہیں یہ کس نے کہہ دیا' ہاں جس طرح مسل کھنچ جاتا ہے
ہوسکتا ہے میرا مسل بھی کھنچ گیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ میاں نواز
شریف کی تعریف کرتا ہوں' نواز شریف جب نوابشاہ آئے تو کہا کہ لگتا نہیں یہ صدر
کا ضلع ہے' مجھے ان کی اس بات پر خوشی ہوئی' انہوں نے صحیح کہا کہ یہ صدر کا
نہیں جیالوں اور بی بی کا ضلع ہے۔ انہوں نے کہاکہ سارے اختیارات پارلیمنٹ کو
دینے پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دبئی میں ایک سابق وزیراعظم نے
آصفہ سے کہا کہ آپ نے جس کو وزیر خارجہ بنایا اس کو میں نے تربیت دی تھی تو
آصفہ نے کہا کہ آپ نے اسے تربیت دی ہم نے اس سے تاریخ بنائی ہے۔ انہوں نے کہا
کہ سیاسی دوستوں کو بتانا چاہتاہوں بی بی کا قرضہ آصفہ اتارے گی، آصفہ نے علم
وہاں سے اٹھانا ہے، جہاں پر گرا تھا۔ہم نے پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا
ہے بیشک بہت سے چیلنجز درپیش ہیں' میں سمجھتا ہوں کہ کل آنے والا چیلنج بڑا
ہوگا جس سے نمٹنے کیلئے ہم نے آج سے تیاری پکڑنی ہے۔ ہم نے نئے ٹریڈ بلاکس
بنانے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ دنیامیں اقتصادی بحران ہے،پارٹی نے نیا معاشی
نظام پیش کیا ہے،دوسرے ممالک کے ساتھ بااثرطریقے سے کام کرینگے ۔ ہم نے دنیا
سے کہا ہے کہ یہ ہمارا حق ہے کہ جس کیساتھ چاہیں تجارت کریں کیونکہ آپ ہمیں
سنبھال نہیں سکتے، ہمیں اپنے بچوں کی فکر کرنی ہے، آپ کے نخرے نہیں اٹھانے۔
جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ بینظیر جیسی قد آور لیڈر کی
شہادت کو چار سال گزرگئے، حکومت بتائے ان کے قتل کا کیا ہوا؟۔بھٹو کی پھانسی
پر ریفرنس لایا گیا اور لیاقت علی خان کے قتل کا معمہ بھی اب تک حل نہیں
ہوسکا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9رکنی لارجر
بنچ نے میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت کی، سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف
جسٹس نے کہا کہ اگر میمو ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے تو پھر اس کی تحقیقات کی ضرورت
کیوں پیش آئی، ایوان صدر میں اس کیلئے اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی اور حسین
حقانی سے استعفیٰ کیوں لیا گیا، عدالت نے اس کیس میں صدر سے جواب طلب کیا تھا
شاید انہوں نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ عدالت نے میمو کیس کی سماعت آج بدھ
تک ملتوی کرتے ہوئے سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کو ہدایت کی
ہے کہ وہ آج اپنے دلائل مکمل کریں جبکہ اٹارنی جنرل کا سماعت کے دوران کہنا
تھا کہ عدالت کو اس معاملے پر پارلیمانی سفارشات کا انتظار کرنا چاہئے اور
عدالت کو اس کیس کی سماعت سے گریز کرنا چاہئے۔ادھر عاصمہ جہانگیر نے میمو کیس
کے ناقابل سماعت ہونے پر منگل کو دلائل دیتے ہوئے دوران سماعت عدالت کے سامنے
ایک سوال رکھا کہ خفیہ ادارے کو حکومت کیخلاف تحقیقات کا اختیار کس نے دیا۔
دائر درخواستوں کی سماعت پر اٹارنی جنرل انوارالحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ
متنازعہ میمو کی ایوان صدر کی جانب سے 29 اکتوبر کو تردید کی گئی تھی جبکہ
وزیراعظم نے 22 نومبر کو اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ عدالت کی جانب سے میمو
کے وجود اور اس کیخلاف دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں پوچھے
گئے سوال پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میمو ایک مفاد عامہ کا
معاملہ ہے لیکن وہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے اور اس سے درخواست گزاروں کے حقوق
متاثر نہیں ہوئے۔ جس پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق نے اپنے
جواب میں کہا ہے کہ یہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے، اگر یہ کاغذ کا ٹکڑا تھا تو ایوان
صدر میں اس کیلئے اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا
کہ بے کار کاغذ کا مطلب ہے کہ اسے پھاڑ کر پھینک دیا جائے یہ تو تحقیقات کے
بعد پتا چلے گا کہ یہ کاغذ کا ٹکڑا ہے یا نہیں جبکہ وزارت خارجہ نے اپنے جواب
میں میمو کی تردید نہیں کی بلکہ اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ جسٹس شاکر اللہ
جان نے کہا کہ آپ اس کو کاغذ کا ٹکڑا کہتے ہیں جبکہ آرمی چیف اس کو ملک کیلئے
خطرہ قرار دے رہے ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اٹارنی جنرل سے استفسار
کیا کہ حسین حقانی سے استعفیٰ کس لیے لیا گیا جبکہ وزیراعظم نے اس کی تحقیقات
کا بھی حکم دیا گیا آپ اس میمو کے وجود سے انکار کرتے ہیں؟۔ اس موقع پر اٹارنی
جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت کو اس معاملے پر پارلیمانی سفارشات کا انتظار کرنا
چاہئے اور عدالت کو اس کیس کی سماعت سے گریز کرنا چاہئے۔ جس پر چیف جسٹس نے
کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کی تحقیقات عدالتی کارروائی کو نہیں روک سکتیں اور
فیصلہ عدالت میں ہونا ہے پارلیمانی کمیٹی میں نہیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے
کہا کہ عدالت پر کوئی قدغن نہیں لیکن یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں کیونکہ اس
معاملے میں بنیادی انسانی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر عدالت
کی سماعت پر کوئی قدغن نہیں تو پھر عدالت کو کیوں روکا جارہا ہے۔ جسٹس جواد
ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو تحقیقات کرنے دی جائیں، میمو جعلی ثابت
ہوگیا تو حکومت سرخرو ہوگی۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوئے تو حسین حقانی کی
وکیل عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت نے آئی ایس آئی کی
بات ماننی ہے تو عدالت میں بھی بہت سے باغی ملیں گے، آپ آئی ایس آئی کی
درخواستوں کو سن رہے ہیں میرے موکل کو عدالت نے سنا ہی نہیں اور اس کیخلاف
سنادیا گیا، میں تو کہتی ہوں کے عدالت میں بے نام درخواستیں دائر کی گئی ہیں،
اگر آئی ایس آئی کی رپورٹ کو دیکھا جائے تو ولی خان اور بینظیر بھٹو سمیت اس
عدالت میں موجود بہت سے افراد غدار قرار دیئے جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ
نوازشریف سمیت تمام افراد کی درخواستیں قابل سماعت نہیں، ان کو مسترد کیا
جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایٹمی اثاثوں کا کنٹرول صدر اور وزیراعظم کے پاس ہونا
چاہئے، ایٹمی اثاثوں کی مالک صرف فوج نہیں بلکہ پوری قوم ہے، وزیراعظم کسی کو
ہٹائیں تو اس میں عدالت کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ
آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ ہٹانے کی خبریں شائع ہوئیں اور تبصرے شروع
ہوگئے کہ میمو پر عمل شروع ہوگیا۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ عدالت کو آرمی چیف
کی برطرف سے کیا مسئلہ ہے، عدالت کو اس معاملہ میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے
کیونکہ آرمی چیف کی برطرفی وزیراعظم کا اختیار ہے اور اگر وزیراعظم آرمی چیف
کو برطرف کرتے ہیں تو وہ اپنا ختیار استعمال کرتے ہیں۔جبکہ وزیراعظم یوسف رضا
گیلانی نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو شہید کے قتل کی تحقیقات تقریباً مکمل ہوچکی
ہیں، معاملہ عدالت میں ہونے کے باعث تفصیلات منظر عام پر نہیں لاسکتے، ضرورت
محسوس ہوئی تو وزیر داخلہ سی ای سی کی میٹنگ میں کچھ حصے ظاہر کریں گے، کنگز
پارٹی کنگ کیساتھ ہی دفن ہوجاتی ہے، اچھا ہوا کمزور دل حضرات پہلے ہی چلے گئے'
الیکشن کے موقع پر جاتے تو ہمیں نقصان ہوتا، اداروں کو لڑانے کی تمام سازشیں
ناکام ہوگئیں' تمام اداروں کو آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہوگا،
آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کوئی تصادم نہیں ہوگا' پیپلزپارٹی بڑی جماعت
ہے' سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ وہ منگل کو یہاں گڑھی خدا بخش بھٹو میں
بینظیر بھٹو شہید کے مزار پر حاضری دینے کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کررہے
تھے۔وزیراعظم نے کہا کہ پیپلزپارٹی نظریہ اور فلسفہ کا نام ہے اور اس کی ایک
طویل
جنگ ہے، دوسری جماعتوں کیساتھ جانے والے لوگ موقع پرست ہیں ان کا کوئی فلسفہ
نہیں۔ اس وقت تمام کنگز ایک جماعت میں اکٹھے ہورہے ہیں تاہم کنگز پارٹی کنگ
کیساتھ ہی دفن ہوجاتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھے خوشی ہوئی کہ جو کمزور دل
حضرات ہمارے ساتھ گزارہ نہیں کرسکتے تھے پہلے چلے گئے کیونکہ الیکشن کے موقع
پر چلے جاتے تو ہمیں نقصان ہوتا۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ
اداروں کے مابین ٹکراو ¿ کی سازشیں ہمیشہ ہوتی رہیں پہلے صدر اور وزیراعظم کے
مابین اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکامی سے دوچار ہوئی پھر حکومت اور
عدلیہ کو ٹکرانے کی کوشش کی گئی اور یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ وزیراعظم ججوں کو
ڈی نوٹیفائی کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد فوج اور حکومت کے مابین اختلاف لانے
کیلئے جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی افواہ پھیلائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم جمہوری قوت ہیں اور بینظیر بھٹو کے فلسفہ مفاہمت پر عمل
پیرا ہیں اور اسی کے تحت تمام قوتوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں تاہم میں واضح
کرنا چاہتا ہوں کہ ہر ادارے کو آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔
اگر ادارے آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں گے تو کوئی تصادم نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ تمام اداروں کو آئین کے تابع بنایا جائے اور
پارلیمنٹ کی بالادستی کو اجاگر کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا
کہ پیپلزپارٹی معمولی نہیں ایک بڑی جماعت ہے جو تمام سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ
کرسکتی ہے۔ امریکہ کیساتھ تعلقات کے فیصلے اب پارلیمنٹ کرے گی۔قبل ازیں
وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے چیئرمین سینیٹ ،وزیراعلیٰ سندھ اور وفاقی
وزیرداخلہ کے ہمراہ بے نظیربھٹو شہید کے مزار پر حاضری دی اور پھولوں کی
چادرچڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔ جبکہ ایک دلچسپ اورخفیہ سیاسی پیش رفت میں
پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بیرسٹر
اعتزاز احسن کو یوسف رضا گیلانی کی جگہ ملک کا وزیراعظم بنانے کا امکان ظاہر
کیا جارہا ہے، صدر زرداری انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق سوائے طریقہ کار کی
چند رکاوٹوں کے اعتزاز احسن کو وزیراعظم بنائے جانے کا قطعی فیصلہ کرلیا گیا
ہے۔ صدرزرداری کے بارے میں چاہے کچھ بھی کہا جائے، تاہم وہ دوست و دشمن دونوں
کو حیران کردینے کا خصوصی ہنر رکھتے ہیں، منگل کو گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے
نظیر بھٹو کی چوتھی برسی کے اجتماع سے خطاب میں صدرزرداری نے اعتزاز احسن کی
مدح سرائی کرکے سیاسی مبصرین کو حیران کردیا صدرنے نوڈیرو آنے پر اعتزاز احسن
کا نہ صرف شکریہ ادا کیا بلکہ ایک غیرمعمولی پیش رفت کے تحت اعلان کیا کہ ان
کے بعد اعتزاز احسن خطاب کریں گے، اس طرح وہ اجتماع کے ایک کلیدی مقرر بن گئے،
صدر کے قریبی ذرائع کے مطابق یوسف رضا گیلانی کو ہٹا کر اعتزاز احسن کو لانے
کیلئے سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ
عدلیہ کے معزول ججوں کی بحالی کے لئے تحریک میں اعتزاز احسن نے کلیدی کردارادا
کیا تھا اور انہیں پارٹی قیادت کی جانب سے ایک طرف کردیا گیا تھا، سن 2009ءمیں
ان کی پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی رکنیت بھی معطل کردی گئی تھی ، تاہم
اعتزاز احسن کا اصرار تھا کہ وہ پیپلز پارٹی نہیں چھوڑیں گے ، شاید ان کی
پیپلز پارٹی کے لئے قربانیاں اب رنگ لائی ہیں اور انہیں وزارت عظمیٰ کے لئے
زیر غور لایا جارہا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیر کی شب نو ڈیرو کے
اجتماع سے قبل قمر زمان کائرہ، فوزیہ وہاب، شیری رحمن، راجہ پرویز اور
دیگررہنماو ¿ں نے اعتزاز احسن سے ٹیلیفون پررابطے کئے جبکہ صدر زرداری 6دسمبر
کو دبئی روانگی سے قبل اور آج کل بھی بیرسٹر اعتزاز احسن کو روزانہ گھنٹوں
طویل ٹیلیفون کالز کرتے رہے ہیں، نوڈیرو سے لاہور واپسی کے لئے طیارے میں سوار
ہوتے وقت رابطہ کرنے پراعتزاز احسن نے اپنے وزیراعظم بنائے جانے کی سختی سے
تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لئے پہلے قومی اسمبلی کا رکن بننا یا ہونا پڑتا
ہے اور وہ ایوان زیریں کے رکن نہیں ہیں، انہوں نے کہاکہ یقیناً ضمنی انتخاب
میں کامیابی کے ذریعہ وزیراعظم بنا جاسکتا ہے لیکن اتنی مختصر مدت کے لئے میں
کیوں وزیراعظم بننا چاہوں گا؟ ایک آئینی ماہر نے تصدیق کی کہ پیپلزپارٹی چاہے
تو 30دن میں ضمنی انتخاب کراکر نیا وزیراعظم لاسکتی ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ
گیلانی کو تبدیل کرنے کے ارادے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدرزرداری صرف پیپلزپارٹی
کی حکومت کی بقاء میں دلچسپی رکھتے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاستی شطرنج کے
گرانڈ ماسٹر صدر زرداری، گیلانی کو ہٹاکر اعتزاز احسن کو لانے کا مقصد ان کی
جانب سے ایک اور جوا کھیلنا ہے جس کے تحت صدر سن 2013ءمیں عام انتخابات کے لئے
مہم اعتزاز احسن اور آصفہ بھٹو زرداری کے ہاتھوں محفوظ سمجھتے ہیں۔اے پی ایس
http://apsnewsagency.blogspot.com/feeds/posts/default?alt=rss


--
Rizwan Ahmed Sagar
Bhalwal(Sargodha)
03458650886/03006002886
Email.sagarsadidi@gmail.com
http://sargodhatv.blogspot.com/
http://bhalwalnews.blogspot.com
http://urduartical.blogspot.com <

Monday, December 26, 2011

پاکستان پر قربان

پاکستان پر قربان
تحریر: سید قمر حیات(میرپور)
Emai: sqamarhayat@gmail.com
{ تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما سر شاہ نواز بھٹو کے فرزند اور پاکستان
کے پہلے منتخب وزیر اعظم و بانی چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی مسٹر
ذوالفقار علی بھٹو شہید کی صاحبزادی 21جون953ء کو کراچی میں پیدا ہوئی
مسٹر بھٹو نے اپنی بیٹی کا نام بینظیر رکھا دُنیا اسلام اور پاکستان کی
پہلی منتخب ہونے والی خاتون وزیر اعظم پاکستان و چیئر پرسن پاکستان پیپلز
پارٹی محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے 5جولائی 1977ء کو پاکستان کے آمر مطلق
جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں جس طرح جرأت و بہادری اور استقامت
کے ساتھ ضیاء الحق کی سفاکانہ ، جابرانہ اور دہشگردانہ پالیسیوں کا
مقابلہ کیا وہ تاریخ میں ہمیشہ یا د رکھا جائے گا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے
10دسمبر 1976ء کو برطانیہ کے شہر لنڈن کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی اسٹوڈینٹس
یونین کی صدارت کامیابی سے حاصل کر کے اپنی بہترین صلاحیتوں اور ذہانت کا
ثبوت دیتے ہوئے فلسفہ سیاست و معاشیات کی تعلیم امتیازی حیثیت سے پاس
کرتے ہوئے اپنے عظیم والد مسٹر ذولفقار علی بھٹو شہید کے مشن کی تکمیل
کیلئے سیاسی زندگی میں عملی طور پر حصہ لینے کیلئے ہی جدوجہد کا آغاز کر
دیا تھا۔ 4اپریل 1979ء کو پاکستان میں ساڑھے گیارہ سال تک اپنے دورِ
آمریت کوطول دینے والے جنرل ضیاء الحق نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو شہید کو
ایک قتل عمد کے مقدمہ میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین
جو کے مسٹر ذوالفقار علی شہید سے ذاتی عناد و بغض رکھتا تھا کی جانب سے
سنائی جانے والی سزا موت کو اُس وقت کی سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے
سزائے موت برقرار رکھوا کرمسٹر بھٹو شہید کو تختے دار پر لٹکا کر جو سیا
ہ کارنامہ سر انجام دیا وہ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں سیاہ ترین
فیصلہ تصور کیا جاتا ہے صد افسوس کے بین الاقوامی سامراجی قوتوں اور اُس
کے ایجنٹوں کی سازشوں کی تکمیل کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے بھٹو ازم اور
پاکستان پیپلز پارٹی کو توڑنے کیلئے انتہائی سفاکانہ ، مجرمانہ، جابرانہ
،چنگیزیانہ، حربے استعمال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک
چیئرپرسن ، مادرِ جمہوریت بیگم بھٹو و محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو پابندہ
سلاسل کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی عہدیداروں و
کارکنان پر جو ظلم و بربریت روا رکھا اور پاکستان میں سیاست کو شجرے
ممنوعہ قرار دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے جیالوں پر کوڑوں اور تشدد کرنے کے
ساتھ ساتھ بہت سے نوجوانوں کو جئے بھٹو کا نعرہ مارنے کی پاداش میں
پھانسیوں کے پھندوں پرلٹکانے کے ساتھ ساتھ تحریر و تقریر پر کڑی پابندیاں
لگانے اور پریس پر کڑی سنسرشپ لاگو کر دی تھی لیکن محترمہ بینظیر بھٹو
شہید نے آمر ضیا ء الحق کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کو
متحد و منظم رکھتے ہوئے پارٹی کارکنان و عہدیداروں کی ڈہارس بنائے رکھی
۔محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی مسلسل نظر بندی کے باعث بیمار ہونے کی صورت
میں بین الاقوامی این جی اوز اور حکومتوں کے دبائو کے تحت جنرل ضیا ء
الحق نے محترمہ بینظیر بھٹو کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی اس جلاوطنی کے
دور میں بھی محترمہ نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان میں عوام پر ضیاء
الحق کی آمریت کو بھر پور طریقے سے بے نقاب کرتے ہوئے مسٹر بھٹو شہید کے
مشن کو جاری و ساری رکھا بلآخراپریل 1986ء کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید جب
لاہور ایئرپورٹ پر اتریں تو اُن کے استقبال کیلئے آنے والے لاکھوں لوگوں
نے جس طرح محترمہ کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور مینار پاکستان لاہور
کے میدان میں لاکھوں افراد نے جلسے عام میں جس طرح شامل ہوئے وہ تاریخ
پاکستان میں ہمیشہ یاد گار رہے گا۔اُس جلسہ عام میں محترمہ بینظیر بھٹو
شہید نے اپنے خطاب کے آخری الفاظ میں ''ضیاء الحق جاوے ہی جاوی'' کا
پرجوش نعرہ لگا کر ضیاء الحق کی آمریت کو لرزا دیا تھا 18دسمبر 1987ء کو
نواب شاہ کے ایک سیاسی خاندان کے سربراہ محترم حاکم علی زرداری کے
صاحبزادے محترم آصف علی زرداری کے ساتھ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شادی
کراچی میں سر انجام قرار پائی۔ جنرل ضیاء الحق کے دنیا سے کوچ کرجانے کے
بعد محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے ضیاء الحق کے حواریوں کی جانب سے لگائے
گئے الزامات و غیر شائستہ طرز عمل کی پروا نہ کرتے ہوئے 1990ء کے
انتخابات میں پاکستان کے عوام کی اکثریت کی حمایت کے باعث انتخابات میں
کامیابی حاصل کر کے حکومت قائم کی لیکن غلام اسحاق خان نے ضیاء کی
باقیات کی سازشوں کے باعث محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت کے خلاف
کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے حکومت کو برطرف کر دیااور پاکستان کی عدالت
عظمیٰ نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت کو متعصبانہ و غیر منصفانہ
رویہ اپناتے ہوئے بحال نہ کیا جس پر محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے کہا کے
سندھ کے وزیر اعظم پاکستان کی حکومت کو بحال نہ کر کے عدلیہ نے تعصب کیا
ہے ۔993ء میں ایک بار پھر پاکستان کے عوام کی اکثریت نے مسٹر ذوالفقار
علی بھٹو شہید کی پاکستانی عوام ملک و ملت و عالم اسلام کیلئے کی جانے
والی خدمات کے صلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو عام انتخابات نے کامیاب کر
کے ضیاء الحق کی باقیات کو شکست سے دو چار کرتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو
شہید کو پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہونے کا اعزاز بخشا۔بدقسمتی سے
پاکستان پیپلز پارٹی کی آستین کے سانپ فاروق لغاری نے احسان فراموشی کرتے
ہوئے بھٹو شہید کے مخالفین کی سازشوں کے باعث ایک بار پھر محترمہ بینظیر
بھٹو شہید کی حکومت پر کرپشن کے جھوٹے الزامات لگاتے ہوئے محترمہ بینظیر
بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کر دیا ۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے مخالفین کی
جانب سے لگائے جانے والے الزامات اور اپنی ہی حکومت میں اُن کے بھائی میر
مرتضیٰ بھٹو کو قتل کروائے جانے والے سازشی عناصر کی سازشوں سے بچنے کی
خاطر اور اپنے بچوں بختاور زرداری بھٹو، بلاول زرداری بھٹو، آصفہ زرداری
بھٹو کی زندگیوں کو خطرات سے بچانے کیلئے محترمہ بینظیر بھٹو شہید 1998ء
میں دبئی منتقل ہو گئیں اور تقریباً 9سال تک پاکستان سے جلا وطن کی جانے
والی پاکستانی عوام کی مقبول ترین سیاسی رہنما محترمہ بینظیر بھٹو شہید
بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے فورم پر پاکستان میں آمریت و غیر
جمہوری قوتوں کی عوام کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف صدائے
احتجاج بلند کرتی رہیں اور جنرل پرویز مشرف مسلسل محترمہ بینظیر بھٹو
شہید کو خودساختہ جلا وطن قرار دیتا رہا اور پاکستان پیپلز پارٹی کو
توڑنے اور پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کی سازشوں میں مسلسل مصروف عمل رہا
بلا ٓخر پاکستان میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے
لوگوں کو توڑ کر اپنی ہمنوا حکومت قائم کرنے میں تو کامیاب رہا لیکن
پاکستان میں دہشت گردی ، فرقہ واریت، خودکش حملے اور دہشت گردانہ
کارروایوں کے باعث پاکستان میں سیاسی ابتری و نازک صورتحال کو مد نظر
رکھتے ہوئے جنرل پرویز مشرف 20جولائی 2007ء کو دبئی میں جا کر محترمہ
بینظیر بھٹو شہید کو پاکستان واپسی آنے اور سیاسی عمل میں حصہ لیتے ہوئے
2007ء میں ہونے والے انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے محترمہ
بینظیر بھٹو شہید کو ایک معاہدے کے تحت پاکستان آنے کو کہا ۔محترمہ
بینظیر بھٹو شہید نے پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کیلئے 18اکتوبر
2007کو واپس پاکستان آنے کا اعلان کر دیا محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے
ازلی مخالفین اور دشمن محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی آمد پر سخت پریشان تھے
اور دبے لفظوں میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو قاتل کیے جانے کی سازش کے
اشارے بھی دے رہے تھے لیکن عظیم باپ کی عظیم بیٹی نے پاکستان میں اپنی
آمد کو یقینی بنانے کیلئے تمام دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے
18اکتوبر 2007کو کراچی ایئر پورٹ پر خصوصی پرواز کے ذریعے تشریف لائیں۔
اور پاکستان بھر سے کشمیر سے خیبرتک لوگوں نے لاکھوں کی تعدادمیں محترمہ
بینظیر بھٹو شہید کا استقبال کیا محترمہ کی کراچی میں آمد کے چند گھنٹو ں
بعد اُن کے جلوس پر دہشگردوں نے دھماکے کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے 200سے
زاہدنوجوانوں کی جانیں تو لے لی لیکن محترمہ بینظیر بھٹو شہید معجزانہ
طور پر محفوظ رہیں اور دوسرے دن کراچی میں ہی محترمہ نے پریس کانفرنس کر
تے ہوئے کہا پاکستان کے عوام سے مجھے کوئی جدا نہیں کر سکتا میں اپنی جان
پاکستان کے عوام پر فدا تو کر سکتی ہوں مگر پاکستان اور پاکستان کے عوام
کو چھوڑ کر میں نہیں جا سکتی ۔بلآخر 2007ء کے انتخابی جلسوں کے آخری جلسہ
عام 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں اپنی زندگی کے آخری جلسہ
عام سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو نے ان الفاظ کو ادا کیا کے
''پاکستان کی دھرتی مجھے پکار رہی ہے ''اور اختتام جلسہ پر گھات لگائے
دہشت گردوں اور سازشیوں کی سازش کے تحت پاکستان کی ممتاز سیاست دان و
پاکستانی عوام کی مقبول ترین لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو دھماکے اور
فائرنگ کرتے ہوئے موت کی نیند سلا دیا گیا۔اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید
پاکستان کے مظلوم عوام اور اپنے جانثار ساتھیوں اور پارٹی کے عہدیداروں و
کارکنان کو روتا ہوا چھوڑ کر دارفانی سے کوچ کر گئیں۔آج محترمہ بینظیر
بھٹو شہید کی چوتھی برسی کے موقع پر پاکستان کے محب وطن ہر طبقہ فکر کے
افراد کو جہاں جہاں بھی وہ جس جس مقام پر فائز ہیں محترمہ بینظیر بھٹو
شہید کی پاکستان کی خاطر اپنی جان نچھاور کرنے کے فلسفے کی تقلید کرتے
ہوئے پاکستان کی مضبوطی و استحکام اور ملک و ملت کے ساتھ وفاداری کو قائم
رکھتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات و تصابات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اجتماعی
مفادات کی نگہداشت کرتے ہوئے پاکستان کو بین الاقوامی سامراجی قوتوں کی
جانب سے درپیش خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک و ملت میں امن و بھائی
چارے کو تقویت دیتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہےی۔
تحریر: سید قمر حیات
مکان نمبر 55سیکٹر A-1سادات کالونی میرپور آزاد کشمیر
فون نمبر: 0346-5031441
شناختی کارڈ نمبر: 81302-1700693-9
Emai: sqamarhayat@gmail.com
سید قمر حیات(میرپور)
sqamarhayat@gmail.com

--
Rizwan Ahmed Sagar
Bhalwal(Sargodha)
03458650886/03006002886
Email.sagarsadidi@gmail.com
http://sargodhatv.blogspot.com/
http://bhalwalnews.blogspot.com
http://urduartical.blogspot.com

Column جاویدہاشمی فطرتاً باغی

جاویدہاشمی فطرتاً باغی

ایک تقریب میں پرویزی آمریت کے باغی جاویدہاشمی شریک تھے ،اچانک وہاں
چودھری شجاعت حسین بھی آگئی۔دونوں رہنما ئوں نے ملتے وقت ایک دوسرے کیلئے
بھرپور گرمجوشی کامظاہرہ کیا۔جاویدہاشمی نے چودھری شجاعت کومخاطب کرتے
ہوئے کہا اگرآپ اپنے امیدوارسیّد مشاہدحسین کومیرے حق میں دستبردارکردیں
توصدارتی الیکشن میں آصف زرداری کا مقابلہ کرتے ہوئے میری کامیابی یقینی
ہوجائے گی۔ چودھری شجاعت حسین نے کہا اگرمیاں نوازشریف آپ کونامزدکردیں
تومیں آپ سے وعدہ کرتا ہوں ہمارا امیدوار آپ کے حق میں دستبردار ہوجائے
گا ۔ چودھری شجاعت حسین کے اس فوری اورمثبت جواب نے جاویدہاشمی کو حیرت
زدہ کردیا۔جاویدہاشمی نے چودھری شجاعت سے کہا آپ مذاق تونہیں کررہے اس پر
چودھری شجاعت نے بتایا کہ میں جانتاہوں میاں نوازشریف کسی قیمت پرآپ کو
نامزدنہیں کریں گے اسلئے فوراوعدہ کرلیا اوربعدمیں وہی ہوا میاں نوازشریف
نے مسلم لیگ ( ن) کے امیدوارکی حیثیت سے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس
سعیدالزمان کو نامزدکردیا اورجاویدہاشمی کی خواہش کابرامنایا اورمذاق
اڑایاگیا۔
میںانتہائی وثوق سے کہتا ہوں اگرآصف زرداری کے مقابلے میں مسلم لیگ
(ن)نے جاویدہاشمی کواپناامیدوارنامزدکیا ہوتا تووہ بازی پلٹ دیتے اورآج
ایوان صدرمیں ہوتے اورجمہوریت سمیت پاکستان کے ایٹمی اثاثوںکوخطرہ ہوتا
اور نہ پاکستان میں کرپشن کابازارگرم ہوتا۔ چاروں صوبوں کے سیاستدان
اورمنتخب ارکان اسمبلی جاویدہاشمی کی طویل مگرصاف ستھری سیاسی جدوجہد
اورقربانیوں کا حیااوراحترام کرتے ہیں،ان کافیصلہ یقینا جاویدہاشمی کے حق
میں ہوتا۔ اپوزیشن لیڈربناتے وقت بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنے
باوفا،باصفااوربہادرساتھی جاویدہاشمی کی صلاحیتوں اورکمٹمنٹ پراعتما دکیا
اورنہ ان کی قربانیوں کوقدرکی نگاہ سے دیکھا۔اگراس بے اعتنائی کو میاں
نوازشریف کی سیاسی کمزوری اورغلطی کہا جائے توبیجانہ ہوگا۔اس وقت مسلم
لیگ (ن) کی باگ ڈورمیاں شہبازشریف کے ہاتھوں میں تھی اوران کاچودھری
نثارعلی خان کی طرف جھکائوکسی سے پوشیدہ نہیں ہی۔میاں شہبازشریف میرٹ کی
رٹ توبہت لگاتے ہیں مگرا ن کاہرفیصلہ پسندناپسند کاآئینہ دارہوتاہے
۔بلاشبہ اپوزیشن لیڈر کامنصب جاویدہاشمی کاحق تھا اوروہ بجاطورپراس کے
اہل بھی تھے مگرانہیں اس حق سے بھی محروم کردیا گیا ،وہ یقیناپارلیمنٹ
میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے زیادہ موثراورفعال ثابت ہوتی۔جاویدہاشمی
کاقصور صرف یہ تھاکہ وہ قومی سیاست کی ایک قدآورشخصیت تھے اورپرویزی
آمریت کیخلاف اعلان بغاوت اورمزاحمت نے ان کی شہرت اورعزت کوچارچاند
لگادیے تھی۔ہمارے ہاں قائدین اپنے ساتھیوں کی خود سے زیادہ پذیرائی
برداشت نہیں کرتے ۔مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کاکہنا ہے کہ عمران خان نے
تحریک انصاف میں نئے آنیوالے افرادکوآگے جبکہ پرانے ساتھیوں کوپیچھے
کردیا ہے توکیا یہ سب کچھ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی میں نہیں ہورہا۔
جماعت اسلامی اورمتحدہ قومی موومنٹ کے سوا کسی سیاسی جماعت کے پاس ڈسپلن
اور مضبوط تنظیمی ڈھانچہ نہیںہی،مگرجماعت اسلامی کوابھی قاضی حسین احمد
کی ضرورت تھی۔
جاویدہاشمی نے اس وقت مسلم لیگ (ن)کی صدارت کابوجھ اپنے کندھوں پراٹھایا
جب پاکستان میں پرویزی آمریت کاسورج سوا نیزے پرتھا اورشریف خاندان کے
افراداپنی رضامندی سے جلاوطنی قبول کرنے کے بعد سرورمحل میں مسرور
تھی۔پرویزرشید بھی چوری چھپے لندن چلے گئے تھی،خواجہ احمدحسان نے مسلم
لیگ (ن) لاہور کی صدارت چھوڑدی تھی اورمیاں شہبازشریف کے منع کرنے کے
باوجود پرویزمشرف کے صدارتی ریفرنڈم کے جلسہ میں سٹیج پرچلے گئے تھے
مگرآج یہ دونوں حضرات میاں شہبازشریف کے دست وبازوبنے ہوئے ہیں ۔اس وقت
بڑے بڑے نامورسیاستدانوں اورجرنیل زادوں نے میاں نوازشریف سے منہ موڑ
لیا تھاجوان دنوں پھران کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ضمیر کے قیدی جاویدہاشمی
کوفوج کیخلاف بغاوت کے ناکردہ گناہ کی پاداش میں گرفتارکرلیا گیا
اورانہیںجیل کی کال کوٹھڑی میں بدترین تشدد کانشانہ بنایا گیا۔جاویدہاشمی
اس وقت بھی کوٹ لکھپت جیل میں تھے جس وقت ان کی حقیقی بھانجی اوران کے
شوہرملتان میں پی آئی اے کاطیارہ تباہ ہونے سے مارے گئے تھے ۔وہ اس وقت
بھی پس زندان تھے جس وقت ان کی بیٹی کواپنے پیاگھرجاناتھامگر اس وقت
اچانک انہیں کسی باضابطہ درخواست کے بغیرزبردستی پیرول پررہاکردیا گیا
تھا۔جس دن انہیں آخری بار کوٹ لکھپت جیل سے رہا کیا گیا تو وہ بذریعہ سڑک
ملتان روانہ ہوئے جہاں قدرت نے ان کے حقیقی بھائی مختارہاشمی کوزندگی کی
قیدسے رہا کردیا۔پرویزمشرف کے دورمیں جاویدہاشمی کی زندگی میں کئی
ڈیزاسٹرآئے مگران کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ایک اندازے کے مطابق
وہ پرویزمشرف کے دورآمریت میں مجموعی طورپر تقریباً پانچ سے چھ برس تک
جیل میں رہے ۔اس دوران ان کے ضمیر کی بولی بھی لگائی گئی اورانہیں توڑنے
کیلئے ان پرظلم کے پہاڑبھی توڑے گئے مگرانہوں نے اپنے حق میں لگائے
جانیوالے نعرے ''ایک بہادرآدمی ہاشمی ہاشمی' کی لاج رکھ لی اورآمر کے
سامنے ڈٹ گئے ۔ روشن خیال پرویزمشرف کی سیاہ آمریت کاظلم و ستم
اورقیدتنہائی کاطویل دوربھی جاویدہاشمی کونہ توڑپایا مگراپنوں کی بے
اعتنائی انہیں موت کے پنجوں تک لے گئی ،انہیں برین ہیمرج ہوگیامگران کے
اہل خانہ اورکروڑوںمداحوں کی دعائوں کے نتیجہ میںللہ تعالیٰ نے ان کی
زندگی بچالی۔
جاویدہاشمی بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کا افتخاراورغرورتھے ،ان کاجانامسلم
لیگ (ن) اوربالخصوص میاں نوازشریف کیلئے ایک بہت بڑادھچکا ہی۔استحصال
اورآمریت کیخلاف بغاوت کرناجاویدہاشمی کی فطرت میں ہی۔جس نے پرویزمشرف کی
آمریت کونہیں ماناوہ کسی سیاستدان کی ڈکٹیٹرشپ کوکیوں مانے گا۔ان کے جانے
سے مسلم لیگ (ن)میںاسٹیبلشمنٹ کے حامیوں کوتقویت ملے گی اورانہیں اب
جاویدہاشمی کی مزاحمت یاتنقید کاسامنا نہیں کرناپڑے گا ۔پاکستان میں
جاوید ہاشمی کے پائے کادوسرا کوئی لیڈرنہیں ہی۔وہ ایک
باکردار،باضمیراورباصلاحیت سیاستدان اورایک حساس دانشور ہیں،ان کافوجی
آمرپرویزمشرف کے ساتھ حلف اٹھانے سے انکارآج بھی قوم کیلئے سرمایہ افتخار
ہی۔ان کی دونوں کتب'ہاں میں باغی ہوں'اور'تختہ دار کے سائے تلی' جوانہوں
نے جیل سے لکھیں سیاسی ادب کابیش قیمت اثاثہ ہیں۔ یہ سوچنایاکہنا کہ
جاویدہاشمی کے جانے سے مسلم لیگ (ن) کوکسی قسم کاکوئی فرق نہیں پڑے گامحض
خوش فہمی ہی۔ایک ہزارراناثناء اللہ پرایک جاویدہاشمی بھاری ہی۔جاویدہاشمی
جہاں سے اورجہاں گئے وہاں بہت فرق پڑے گا۔جاویدہاشمی کاتحریک انصاف میں
جاناپاگل پن نہیں بلکہ ایسے انمول انسان کی قدر نہ کرنا اوراسے دیوار سے
لگاناپاگل پن ہی۔ جاویدہاشمی کی آمریت کیخلاف مزاحمت اوراستقامت اپنی
مثال آپ ہی،وہ قومی سیاست میں اپنا فعال کرداراداکرنے کیلئے کسی پارٹی
منصب کے محتاج نہیں ہیں۔ انہوں نے زندگی بھراسٹیبلشمنٹ کی ڈکٹیشن قبول کی
اورنہ ان کی مرضی کے مطابق کوئی قدم اٹھایا۔ جاویدہاشمی بلاشبہ ایک قومی
اثاثہ ہیں ، ان کے تحریک انصاف میں جانے سے اب کوئی عمران خان پر
اسٹیبلشمنٹ کاحمایت یافتہ ہونے کے حوالے سے انگلی نہیں اٹھاسکتا۔مسلم لیگ
(ن) کی قیادت کے ہاتھوں استعمال ہونے اورپھر استحصال کانشانہ بننے والے
کارکنوں کی دعائیں اوروفائیں جاویدہاشمی کے ساتھ ہیں۔ جاویدہاشمی کے
حالیہ فیصلے کی آڑ میں ان کی شخصیت پرتنقیدکرنیوالے سیاسی بونے ہیں۔مسلم
لیگ (ن) میں جاویدہاشمی کی کمی کوئی پوری نہیں کرسکتا،اگرقائدین کوا س
بات کاادراک یااحساس نہیں توپھریقینا ان میں سیاسی بصیرت کافقدان ہی۔
پارٹی میںمسلسل حق تلفی کے باوجود جاویدہاشمی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے
ساتھ وفاداراور مخلص رہے اور اعلیٰ ظرف ہونے کاثبوت دیا ۔ شریف خاندان کی
جلاوطنی کے بعد اورخودپابندسلاسل ہونے کے باوجوداگرجاویدہاشمی مسلم لیگ
(ن) کاپرچم سربلندنہ کرتے توپرویزمشرف اس قومی جماعت کاشیرازہ بکھیر نے
میں کامیاب ہوجاتا،مگرجاویدہاشمی نے میاں نوازشریف کی امانت میں خود
خیانت کی نہ کسی دوسرے کونقب لگانے دی۔
عمران خان واقعی خوش نصیب ہیں جو بیٹھے بٹھائے ملتان کے دوسیّدزادے
اوردومنجھے ہوئے سیاستدان انصاف کی تحریک سے آملے ہیں اوراب یہ تحریک
قومی سیاست میں ایک تاریخ رقم کرے گی۔عمران خان ان دونوں سیّدزادوں کوکس
طرح ایک ساتھ لے کر چلتے اوران کے ساتھ تعلقات میںتوازن برقرار ر کھتے
ہیں ،اب یہ عمرا ن خان کی سیاسی صلاحیتو ں کاامتحان ہے ۔جاویدہاشمی کے
آنے سے تحریک انصاف ایک سنجیدہ سیاسی جماعت بن کرابھری ہی۔اب ملک بھر سے
جاویدہاشمی کے مداحوں سمیت سیاستدان اورسیاسی کارکن جوق درجوق تحریک
انصاف کارخ کریں گی۔جاویدہاشمی کی تازہ بغاوت سے مسلم لیگ (ن) کابندٹوٹ
گیا ہے ،اب کئی ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اوراہم عہدیدارتحریک انصاف میں
چلے جائیں گی۔عمران خان کی اس کامیابی کے پیچھے ان کے مثبت رویے اورمستقل
مزاجی سے زیادہ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کی قیادت کامنفی رویہ کارفرما
ہی۔ موروثی سیاست کے سبب دونوں حکمران پارٹیوں کاگراف دن بدن
گرتااورعمران خان کاراستہ ہموارہوتاجائے گا۔
جاویدہاشمی فطرتاً باغی کونینمحمدناصراقبال
خان 0300-9469369