Wednesday, December 14, 2011

Urdu column

سید بختیار بخاری ایڈووکیٹ
سیاسی تجزیہ کاروں کی پیشنگوئی ہے کہ 'سال دو ہزار گیارہ' پاکستان کی
سیاسی صورتحال کیلئے ہنگامہ خیز ثابت ہو گا' جس میں حکومت کیلئے پرشور
عوامی احتجاج اور قانونی و انتظامی محاذوں پر مشکلات انتظار کر رہی ہیں۔
گزرے ہوئے سال میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئی' جن کی مثال دی جا سکتی
ہی۔ بات جنوری دو ہزار دس میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل سے
نومبر میں پاک افغان سرحد پر ہوئے امریکی حملے میں پاکستانی فوجیوں کی
شہادت تک پھیلی ہوئی ہی۔ اس دوران قدرتی اور کئی ایسے سانحے رونما ہوئے
جن کے اسباب ملک کی داخلی صورتحال اور انتظامی نظم و نسق سے ہے لیکن اس
تمام عرصہ میں پیش آنیوالی بہت سی مشکلات کیلئے امریکہ کو ذمہ دار
ٹھہرایا گیا۔ یقینی طور پر امریکہ کی خارجہ پالیسی اور جنگی حکمت عملی نے
پاکستان سمیت پورے خطے کی اقتصادی و معاشی صورتحال کو جھنجوڑ کے رکھ دیا
ہے تاہم اپنی تمام مشکلات و مصائب کیلئے امریکہ کو موردِ الزام ٹھہرانا
قطعی طور پر درست نہیں ہوگا۔
پاکستان کے ایک سالہ سفر کی کہانی میں ربط کا فقدان حکومت کی دیگر
ترجیحات کے باعث ظاہر ہوا جبکہ اس کی حد سے زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی
تھی۔ جمہوری نظام میں قائدین کی تعریف یہ ہوتی ہے کہ وہ ریاستی وسائل کے
بہتر اور مفید استعمال کیلئے ایک دوسرے کی رہنمائی اور مدد کرتے ہیں۔ سال
دو ہزار دس کے دوران حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایک درجہ کی ہم
آہنگی پائی گئی جو دو ہزار گیارہ کے آغاز اور اختتام کے قریب مکمل طور پر
جاتی رہی۔ رواں برس کے دوران ایک مرحلے پر پنجاب اسمبلی توڑنے کی آواز
بھی آئی تاکہ دو ہزار بارہ میں سینیٹ انتخابات کو روکا جا سکی' جس میں
پیپلز پارٹی کی دیگر جماعتوں پر برتری واضح دکھائی دے رہی ہی۔ دو ہزار دس
کے دوران حکومت کو فوجی بغاوت کا خطرہ رہا اور اسی ناقص الخیالی کی وجہ
سے کئی ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں' جن کے گرداب سے نکلنا دشوار دکھائی دے
رہا ہی۔ ملک کی خارجہ پالیسی کے خدوخال ازسر نو متعین کرنے اور افغانستان
پالیسی کے حوالے سے حالیہ چند دنوں میں ہونے والے اقدامات کا مطالبہ ایک
عرصے سے عوامی حلقے کرتے آئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بون کانفرنس میں
شرکت سے انکار جیسے مؤقف کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے
سیاسی تنہائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
بون کانفرنس کی میزبانی افغانستان اور جرمنی مشترکہ طور پر کر رہے ہیں
اور پاکستان کے وفد کی اس میں شرکت نہ کرنے سے یقینا پاکستانی مؤقف سنا
نہیں جا سکے گا۔سال دوہزار گیارہ کے دوران ملک کی معاشی صورتحال پر سیلاب
اور دہشت گردی کے بادل چھائے رہی۔ دسمبر کے آغاز میں پاکستانی روپے کی
قدر میں اچانک کمی سبھی کیلئے حیرانی کا باعث بنی اور یہ تشویشناک امر
بھی ہے کیونکہ 2008ء میں موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے وقت ڈالر
اور روپے کا شرح تبادلہ 62.57 پیسے تھا جو تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے
معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کی وجہ سے 86 روپے 34 پیسے کی حد تک جا
پہنچا اور یکم دسمبر کو کاروباری لین دین کے اختتام پر اس کی قدر میں 21
پیسے کی کمی ہوئی جس سے امریکی ڈالر 88.79 روپے ہو گیا۔ روپے کی قدر میں
مزید کمی سے ریٹ 89 روپے ہو چکا ہے اور اقتصادی صورتحال پر نگاہ رکھنے
والوں کا کہنا ہے کہ چالیس سے پچاس ارب ڈالر تیل کی درآمدات پر خرچ کرنے
کی وجہ سے پاکستانی روپیہ غیر مستحکم ہوا ہی۔
سندھ میں سیلاب اور تیل کے بڑھتے ہوئے درآمدی اخراجات میں اضافہ ہوا ہی۔
اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ 90 روپے کی نفسیاتی حد بھی عبور کر چکا ہی'
تاہم ملک میں مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے ذمہ داروں کا کہنا ہے
کہ معیشت میں بہتری امریکی امداد سے مشروط ہی' جو دو مئی کے واقعات کے
بعد سے بند ہی۔ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان یاسین انور نے کہا ہے کہ
''دو دسمبر کو امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کا شرح تبادلہ 89
روپے ہونا ایک وقتی اور عارضی صورتحال ہے اور آنے والے چند دنوں میں روپے
کی قدر مستحکم ہو جائے گی۔'' انہوں نے کہا کہ ''امریکی ڈالر اور روپے کی
قدر کا تعلق 'اوپن مارکیٹ' میں مانگ سے ہوتا ہے اس میں کمی بیشی کا تعلق
ملک کی آئندہ صورتحال کے اندازوں سے نہیں۔''
تجزیہ کاروں' صحافیوں اور سیاستدانوں کا مؤقف ہے کہ پاکستان میں اصل
اقتدار فوج اور امریکہ کے پاس رہتا ہے لیکن چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی
سے چلنے والی سماجی تبدیلی کی لہر نے سیاست اور سیاسی رجحانات کو تبدیل
کیا ہی۔ رواں برس کی سب سے اہم بات یہی تبدیلی ہے جو کہیں عمران خان کے
جم غفیر اجتماعات کی صورت دکھائی دیتی ہے اور کہیں امریکہ مخالف مظاہروں
میں عوامی حلقوں کی جانب سے پاکستان کی اقتصادی و معاشی آزادی کا مطالبہ
سر چڑھ کر بولتا نظر آتا ہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کے ابتدائی تین
سال کا عرصہ جس قدر سہل تھا' آنیوالا دور اسی قدر پریشان کن ثابت ہوا ہی۔
ملک سے عسکریت پسندی' انتہاء پسندی اور اقتصادی صورتحال میں استحکام
جیسے اہداف کیلئے جن اصلاحات کی ضرورت ہے شاید انہیں وضع کرنے اور عملاً
نافذ کرنے کیلئے زیادہ وقت نہیں باقی نہیں۔
٭٭٭٭٭٭
کراچی واقعی کراچی ہی!
عاطف شیخ
: اگر آپ پیدائش سے پہلے سے اردو بولتے ہیں اور آپ کی رہائش پیدائش سے
پہلے سے کراچی کی ہے توآپ کی رگوں میں کراچی کی محبت زیادہ اور ماں باپ
کا خون کم ہوگا۔ آپ کے خیالات میں کراچی کی گلیاں اور خوابوں میں وہاں کے
لوگ اکثر آتے ہوں گی۔ کراچی واقعی کراچی ہے اور کیوں نہ ہو اس کی مٹی میں
گرمی اور نمی کے ساتھ وہ خوشبو آتی ہے جو پردیس کے گلاب میں بھی نہیں
ہوتی۔ کراچی کے ٹریفک کا دھواں بھی عجیب ہی، یہ گلا تو ضرور خراب کر دیتا
ہے مگر جب میسر نہیں ہوتا تو یاد آتا ہی۔ میرا بھائی اکثر کہتا تھا کہ تم
لوگ فیشیل کروانے میں وقت اور پیسا ضائع کرتے ہوکسی بھی بس کے پاس جا کر
کھڑی ہو جایا کرو ، ایک دم فریش ہو جاؤ گی۔ اگر آپ کراچی میں رہے ہیں اور
آپ نے ٹو ڈی ، یوفور، جی ٹوئنٹی فائیو، یا ڈبلیوالیون میں سفر نہیں کیا
تو یقین جانئے کہ آپ نے زندگی ضائع کردی۔ کراچی کی بسیں تو وہ بسیں ہیں
جو آپ کو عشق کی ان بلندیوں پہ لے جاتی ہیں جہاں اگر آپ لڑکے ہیں تو آپ
کو سیٹ کے پیچھے سے خاموشی کے ساتھ لڑکی کے دوپٹے پہ اپنا فون نمبر لکھنا
آجائے گا اور اگر آپ لڑکی ہیں تو آپ کو بہادری کا وہ گر آجائے گا جس میں
آپ کھڑی ہو کر ایک جملہ بولیں گی کہ شرم نہیں آ تی تم کوسیٹ کے پیچھے سے
تنگ کر رہے ہو اور پوری بس اس بندے کو مارنے کو ایسے پل پڑے گی جیسے
انہوں نے تو زندگی میں کبھی کوئی لڑکی چھیڑی ہی نہیں۔ اکثر توآپ کالج
پہنچے تھے توآپ کو پتہ لگتا تھا کہ محلے کے دو چار آوارہ آپ کو با حفاظت
کالج چھوڑنے آئے تھے اور اب ان کے لینے آنے کا بھی قوی امکان موجود ہی۔
کراچی کی گلیوں میں کھیل کر جوان ہونا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ اس عرصے
میں آپ کو گیٹ پھلانگنا ، گھنٹیاں بجا کر بھاگنا، مخالف جنس سے سائیکل پہ
ریس لگانا اور اگر لائٹ چلی جائے توچھپ کے پڑوسیوں کے کنڈوں میں رسی
باندھ کر گیٹ بجاناآ جاتا ہے اور یہ کراچی کے ہی اسکول ہیں جنہوں نے ہم
کو اتنا بہادربنادیاکہ چوک کے ڈبے میں چوک بھر کے پنکھے پہ رکھ کر اور
ٹیچر کے آنے پہ پنکھا چلا کر ٹیچر کا استقبال کرتے تھے اورکوک کی بوتلیں
جمع کر کے ان کے بدلے کینٹین سے پیسے کمانے کے فن نے تو اچھا خاصا بزنس
پرسن بنادیا تھا۔ اگر تہواروں کو یاد کیا جائے تو کراچی کی رونق الگ ہی
ہوتی تھی۔ بقر عید پہ آنے والے بکرے کو یہ اعزاز حاصل ہوتا تھا کہ وہ
(فرحین) یعنی مالک کے نام سے مشہور ہوجاتا تھا اور لوگ باآواز بلند
پکارتے تھے کہ فرحین کا بکرا۔ بکرے کے آنے سے درختوں پہ چڑھنے کا شوق بھی
پورا ہوجاتا تھا اور ہم اکثر پڑوسی کے آم کے درخت پہ ہی چڑھے رہتے تھے
اور آخر میں پتہ چلتا تھا کہ بکرے کے پیٹ میں ہماری وجہ سے ہی درد ہوا ہے
اور عید پہ اونٹ کی سواری کرنا تو جیسے مذہبی فریضہ تھا۔ میری دوست کا
کہنا تھا کہ دن میں پڑھا نہیں جاتا کیوں کہ سبزی والے بہت آتے ہیں ،رات
کا وقت سکون کاہوتا ہی۔ ویسے ہماری گلی میں بھی ایک آدمی آتا تھا جو کہ
کچھ آواز لگا کر بیچنے کی کوشش کرتا تھا اور میری دوست نے شرط لگا لی کہ
بغیر پوچھے بتاؤ کہ یہ کیا بیچتا ہی۔ وہ آواز کچھ یوں لگاتا تھا کہ ( ٹیل
ٹوٹی ٹلالووووو) اور مجھے یہ جاننے کے لیے ایک ہفتہ لگا کہ یہ کہتا ہے کہ
سل بٹہ کٹوالو۔یہ کراچی کی ہی مہربانی تھی کہ اس نے ہم کو ٹریفک پولیس کو
چکما دینا اور گاڑیوں سے لٹک کر نعرے بازی کرنا بھی سکھایا اور چھوٹی سی
عمر میں گلیوں میں جھاڑو بھی لگوائی اور چراغاں بھی کروایا۔ آج چاہے
کراچی میں کتنے ہی امریکن فوڈچینز کھل جائیں یا فوڈ اسٹریٹ بن جائیں مگر
جو مزہ سلور اسپون کے رولز، مسٹر برگر، دستگیر کی نہاری، مزیدار حلیم
،برنس روڈ کے دھی بڑھی، انچولی کی چاٹ، فنگرفش، بنوری ٹاؤن کے جوس، جیل
روڈ کی مچھلی، پی آئی ڈی سی کے پان اور اسٹوڈنٹ بریانی کا تھا وہ کسی اور
کا نہ تھا اور نہ ہی۔ غرض یہ کہ ہم کو کراچی نے پالا، سمجھ بوجھ دی ،
تعلیم کے ساتھ اسٹریٹ اسمارٹ بنایا اور عشق بھی سکھایا۔ کراچی سے عشق جو
آج بھی مجھ کو مجبور کرتا ہے کہ میں گوگل میپ پہ جاکر اپنی پرانی گلیاں،
اسکول ، کالج، دوستوں کے گھر سب گھوم کر آجاتی ہوں۔ میرے دل نے جس طرح آج
بھی کراچی کو محفوظ کیا ہوا ہے اور آنکھوں نے جس طرح حال پہ نظر رکھی
ہوئی اسی طرح کراچی کا مستقبل مجھ سے اور میں کراچی سے وابستہ ہوں۔ چاہے
میں وہاں کی فضاؤں میں جاؤ یا مٹی میں ، جانا وہاں ہی ہی۔
٭٭٭٭٭٭
زرعی ملک میں خوراک کا بحران
محمد اجمل معظمی
پاکستان میں خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ
فوڈ پروگرام کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں سخت تشویش کا اظہار
کیا گیا ہے ۔یو این او کے ادارہ برائے خوراک کے پاکستان میں ڈائریکٹر
وولف گینگ ہر بلز نے جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ
پاکستان میں ناقص حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے غذائی اشیاء کی قیمتیں بہت
زیادہ بڑھ گئی ہیں ، ملک میں گندم اور غذائی اجناس کی کمی نہیں لیکن
لوگوں کی بہت بڑی تعداد کے پاس روٹی خریدنے کے پیسے نہیں اور وہ غذائی
اشیاء خریدنے کے لئے بھی قرض لینے پر مجبور ہیں ۔ درحقیقت یہ رپورٹ محض
پاکستان کے عوام کی دگرگوں معاشی صورتحال کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ
پاکستان میں '' گڈ گورننس '' پر عدم اعتماد کا عالمی اظہار بھی ہے ۔عمدہ
طرز حکمرانی کے لئے درکار ضروری شرائط میں سے قانون کی حکمرانی سے متعلق
حکومت کی حکمت عملی کا اندازہ تو عدلیہ کے ساتھ جاری چھیڑ چھاڑ اور
مخاصمانہ رویوں ہی سے لگایا جا سکتا ہے جبکہ عوام کو بنیادی ضروریات یعنی
خوراک ، لباس اور مکان کی فراہمی بھی موجودہ حالات میں ناممکن دکھائی
دیتی ہے ۔خوراک کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ پر عوام ہی سر نہیں پیٹ رہے
بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تعجب اور تشویش کا بر ملا اظہار کیا جا
رہاہے لیکن المیہ یہ ہے کہ موجودہ ملکی قیادت کوملک کی 80فیصد آبادی کو
درپیش خوراک کی قلت اور عدم دستیابی جبکہ خوفناک مہنگائی کے سامنے دم
توڑتی امیدوں کا رتی بھر احساس نہیں ہو رہا ۔
ملک میں بنیادی طور پر جاگیر داروں اور صنعتکاروں کی حکومت ہے جو محض
اپنے فوائد اور مفادات کے تحت پالیسیاں وضع کرتے ہیں ۔ پاکستانی
سیاستدانوں کے متعلق بعض تجربہ کاروں کا یہ تبصرہ موجودہ حالات میں با
لکل صائب دکھائی دیتا ہے کہ ملکی سیاست دانوں کے باہمی تنازعات اور
مفاہمت بھی ذاتی مفادات کی بنیاد پر ہوتی ہیں ، جن کا عوام کے عمومی
مسائل اور ان کے حقوق سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔حکومت کا بنیادی مقصد
عوام کی خدمت ہونا چاہئے اور حکمرانوں کو محض عوامی بھلائی کو مد نظر
رکھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں لیکن بد قسمتی سے ملک میں عوامی بھلائی
کا کوئی تصور دکھائی نہیں دے رہا ۔ ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان
میں خوراک کی موجودہ قیمتیں بالادست طبقات کی ذخیرہ اندوزی ،ناجائز منافع
خوری ، بد عنوانی ، خیانت اور بد دیانتی کی واضح عکاسی کر تی ہیں جو واضح
طور پر حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہے ۔اقوام متحدہ پہلے بھی ایشیامیں خوراک
کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عوام کو درپیش مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے خطے
کے ممالک پر زور دے چکی ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے خوراک کی
قیمتوں کو بڑھنے سے روکیں اور اس کے لئے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت
عالمی تعاون کو فروغ دیں ۔
بلاشبہ دنیا بھر میں خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر تشویش کا اظہار کیا
جا رہا ہے تاہم یہ امر بھی واضح رہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے
دنیا کے امیر ممالک اور غریب ممالک کے بالا دست طبقات کے طرز زندگی اور
ان کی عیش و عشرت میں کوئی خلل واقع نہیں ہو رہا ۔ البتہ دنیا بھر کے
غریب عوام کو زندگی کے لالے ضرور پڑتے جارہے ہیں ۔پاکستان کی صورتحال اس
کی ایک مثال ہے ، جہاں سیلاب کے باعث اگرچہ پیداوار میں کمی آئی ہے تاہم
اصل مسئلہ خوراک کی مصنوعی قلت ہے ، جس کی وجہ سے ایک عام آدمی کا
تقریباً نصف بجٹ محض خوراک کی نذر ہو رہاہے اور وہ بچت کرنے یا مستقبل کے
لئے کچھ پس انداز کرنے کے قابل نہیں رہا ۔ مناسب پوشاک اور مکان کی تعمیر
، اولاد کی شادی بیا ہ کے فرائض اور ان کی تعلیم و تربیت اور صحت کی جانب
ایک عام آدمی کو سوچنے کا موقع ہی نہیں مل رہا ۔اس پر مستزاد حکمران
طبقات کی عام آدمی کے مسائل سے لاعلمی یا عدم توجہ کی کیفیت ہے جس نے
غریب طبقے کے احساس محرومی میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔خورا ک کی قیمتوں
میں اضافہ کی بنا ء پر بے روزگاری ، غربت و ناداری اور خود کشی کی شرح
میں اضافہ ہو تا جارہاہے جبکہ لو گ مختلف نفسیاتی امراض کا بھی شکار ہوتے
جارہے ہیں ۔اس سنگین صورتحال کے تدارک کے لئے اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ
پاکستان میں سبز انقلاب کی جانب جنگی بنیادوں پر پیش قدمی کی جائے ۔زرعی
پیداوار میں اضافہ کے لئے فوری طور پر منصوبہ بندی کی جائے اور عام کاشت
کار کے مسائل کو اولین ترجیحات میں شامل کر کے حل کیا جائے ۔زرعی پیداوار
میں اضافہ کے ذریعے ہی ملک کے بیشتر معاشی مسائل پر بھی قابو پایا جا
سکتاہے ۔خلوص نیت ، سنجیدگی اور مربوط حکمت عملی سے کام کیاجائے تو
پاکستان کی زرخیز زمین یہاں بسنے والے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل
کر سکتی ہے ۔
موجودہ ملکی قیادت نے اپنے دور ِ اقتدار کے باقی ماندہ دنوں میں غریب
عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لئے زرعی انقلاب کے زمرے میں قابل قدر
اور دور رس نتائج کے حامل اقدامات نہ کئے تو اسے آئندہ ٹرم میں اقتدار سے
محرومی کا یقین کر لینا چاہئے ۔اس وقت پاکستان جن حالات سے دوچار ہے
انہیں مد نظر رکھتے ہوئے ملکی سلامتی کا اولین تقاضا ہے کہ حکمران اپنے
طرز عمل میں تبدیلی لا کر عوام کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا کریں
اور انتخابات میں روٹی کپڑا اور مکان کے حوالے سے عوام کے ساتھ کی جانے
والی کمٹمنٹ کو پورا کریں ۔ناقص طرز حکمرانی کی وجہ سے نہ صرف عوام مسائل
سے دوچار ہو رہے ہیں بلکہ ملک کے شورش زدہ علاقوں میں حکمرانی کا طرز عمل
ریاست کے خلاف مخاصمت کا ماحول بنانے کے لئے بھی جواز کے طور پر سامنے
آرہا ہے ۔
ملک میں موجودہ معاشی انتشار اور سماجی بگاڑ حکمران اور بالادست طبقات
کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے اور تمام قومی حلقوں کو بھی غور و فکر کی دعوت
دے رہا ہے کہ وہ عالم اسلام کی عظیم ریاست کی فلاح و بہبود اور ترقی و
خوش حالی کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی کوشش کریں ۔معاشرے میں
پھیلتا ہوا فساد جہاں غربت و مہنگائی اور بے روزگاری کے نتائج ہیں ، وہاں
بڑھتی ہوئی ہوس زر اور بے لگام لالچ ، نام و نمود اور اسراف و تبذیر کا
شاخسانہ بھی ہے ۔حکمران طبقے کو جہاں معاشی اور ز رعی اصلاحات کی طرف
توجہ دینا چاہئے وہاں عوام کی درست خطوط پر تربیت اور تعلیمی ترقی سے بھی
پہلو تہی انجام کار کے اعتبار سے حد درجہ سنگین مسائل کا سبب بن سکتی ہے
۔موجودہ جمہوری قیادت ملک میں گڈ گورننس کی مثال پیش نہ کر پائی تو آنے
والے دنوں میں بڑھتے ہوئے مسائل کے ساتھ ساتھ جمہوریت کا مستقبل بھی
خدشات کا شکار ہوسکتا ہی۔کوئی ہے جو ان باتوں پر غور و فکر کرے !!
٭٭٭٭
امریکہ کے ساتھ تعلقات کا نیا دور
سید بختیار بخاری ایڈووکیٹ
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستان کو دی جانے والی ستّر کروڑ ڈالر کی
امداد روکی نہیں ہے بلکہ اسے امریکی محکم دفاع کی جانب سے دیسی دھماکہ
خیز مواد کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ حکمتِ عملی کی تیاری سے مشروط کیا
گیا ہی۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کی
ترجمان وکٹوریہ نولینڈ کا کہنا تھا کہ 'ہم نے پاکستان کے لیے امریکی
امداد میں سات سو ملین ڈالر کی کٹوتی نہیں کی'۔اسی بارے میںپاکستان سے
تعلقات، ازسرنو جائزے کا مطالبہ نظرانداز'منہ موڑنے سے فائدہ نہ ہوگا،
پاکستان نظرثانی کری'۔متعلقہ عنواناتامریکہ پاکستان دہشت گردی انہوں نے
بتایا کہ 'یہ اس دفاعی بل کا حصہ ہے جو کہ اس وقت کانگریس میں ہے اور جس
کے تحت محکم دفاع کو مخصوص عسکری نظاموں کے استعمال اور کارگزاری کے
حوالے سے حکمتِ عملی خصوصاً دیسی دھماکہ خیز مواد کے معاملے پر پاکستان
کے ساتھ مل کر حکمتِ عملی تیار کرنا ہوگی'۔
Gوکٹوریہ نولینڈ کا کہنا تھا کہ 'ظاہر ہے کہ اگر یہ بل قانون بن گیا تو
ہم حکومتِ پاکستان کے ساتھ مل کر اس کی شرائط پوری کرنے کے معاملے پر کام
کریں گی'۔خیال رہے کہ امریکہ میں اراکینِ پارلیمان کے پینل نے اس بات پر
اتفاق کیا ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی ستّر کروڑ ڈالر کی امداد روک دی
جائی۔یہ اتفاقِ رائے پیر کی رات ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے اراکین پر
مشتمل مذاکراتی پینل کے اجلاس میں ہوا تھا جو امریکہ کے چھ سو باسٹھ ارب
ڈالر کے دفاعی بجٹ پر بحث کر رہا ہی۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق
دفاعی بجٹ کا یہ بل توقع ہے کہ رواں ہفتے منظور کرلیا جائے گا۔
پاکستان کو دی جانے والی امداد پر قدغن لگانے کا مقصد اس پر دباؤ بڑھانا
ہے کہ وہ اپنے ملک میں دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد کی پیداوار کو روکے جو
افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہی۔ایوانِ نمائندگان
کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین بک مک کیون کا کہنا تھا 'ہمارے پاکستان
کے ساتھ تعلقات میں اب بدگمانی آچکی ہی۔ (تاہم) ہمیں ان کی ضرورت ہے اور
انہیں ہماری۔ لیکن ایک بات جو مجھے افغانستان کی اِس جنگ میں سب سے زیادہ
مضطرب کرتی ہے وہ زندگیوں اور انسانی اعضاء کا زیاں ہی۔'
بیس ارب ڈالر امدادامریکہ نے سنہ دو ہزار ایک سے اب تک پاکستان کو معاشی
اور سکیورٹی کی امداد کی مد میں بیس ارب ڈالر مختص کیے ہیں جن میں سے
زیادہ تر ادائیگی پاکستان کی جانب سے خرچہ کے کھاتے دکھانے کی بعد کی گئی
ہی۔رائٹرز کا کہنا ہے کہ امریکہ میں پاکستان پر شدت پسندوں سے نمٹنے میں
ناکامی اور ایبٹ آباد میں امریکی فوج کی خفیہ کارروائی میں اسامہ بن لادن
کی ہلاکت کے بعد شدت پسندوں کی مبینہ پشت پناہی جیسے رجحانات کے بعد اسے
سزا دینے کے مطالبات میں اضافہ ہورہا ہی۔رائٹرز کے مطابق دیسی ساختہ
دھماکہ خیز مواد افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوجیوں کو نشانہ بنانے
کے لیے شدت پسندوں کا مؤثر ہتھیار ہی۔ زیادہ تر دیسی ساختہ بموں کو بنانے
کے لیے امونیم نائٹریٹ یعنی عام کھاد کا استعمال کیا جاتا ہے اور یہ مواد
پاکستان سے سرحد پار لایا جاتا ہی۔ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے
سینیٹر جان مک کین نے کہا 'افغانستان میں امریکی فورسز کے خلاف استعمال
ہونے والے دیسی ساختہ بم بنانے کے لیے زیادہ تر مواد پاکستان میں واقع
کھاد کی دو فیکٹریوں سے آتا ہی۔'
امریکہ نے سنہ دو ہزار ایک سے اب تک پاکستان کو معاشی اور سکیورٹی کی
امداد کی مد میں بیس ارب ڈالر مختص کیے ہیں جن میں سے زیادہ تر ادائیگی
پاکستان کی جانب سے خرچہ کے کھاتے دکھانے کی بعد کی گئی ہی۔تاہم امریکی
قانون دانوں نے حالیہ دنوں میں پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے
کردار پر جھنجلاہٹ کا اظہار کیا ہی۔
پاکستان نے جس طرح سیاسی اور عسکری قیادت میں ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا ہے
اس کا نتیجہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو دھمکی لگانے کی بجائے مذاکرات کا
رستہ اپنا رہا ہے ۔ شمسی ایئر بیس خالی کروانے کا اقداما ت اتنا معمولی
نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جا سکے اگرچہ یہاں سے اب ڈرائون حملے کرنے کا
سلسلہ بند ہو چکا تھا پھر بھی پاکستانی حکومت نے جرات کا مظاہرہ کیا۔جہاں
تک امریکہ سینٹر جان مک کین کی باتوں کا سوال ہے وہ تو ہمارے کوڑے کرکٹ
کو ری سائیکل کرکے بھی بم بنانیکی صلاحیت کے بھی معترف نظر آئیں گے
پاکستان کو اپنے اندرونی و بیرونی دشمنوں سے نمٹنے کیلئے مضبوط ہونے کی
ضرورت ہے وہ اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک اقتدار میں باری کیلئے
انتظار کی رسم پر عمل نہیں کیا جاتا۔
٭٭٭٭٭٭


--
Rizwan Ahmed Sagar
Bhalwal(Sargodha)
03458650886/03006002886
Email.sagarsadidi@gmail.com
http://sargodhatv.blogspot.com/
http://bhalwalnews.blogspot.com
http://urduartical.blogspot.com <

No comments:

Post a Comment