Monday, December 12, 2011

پادری یعقوب ناصر۔بھلوال,صدر کی بیماری اور میمو گیٹ فوبیا,پاک بھارت تعلقات اور کشمیری قیادت

دسمبر،کرسمس کی خریداری اور تیاریوں کا مہینا
پادری یعقوب ناصر۔بھلوال
امریکہ میں دسمبر کا مہینا کرسمس کی خریداری اور تیاریوں کا مہینا ہی۔
اور، اِس موقع پر نہ صرف گھروں کے باہر بلکہ بڑے بڑے شاپنگ مالز اور
اسٹوروں پر خوب سجاوٹ بھی کی جاتی ہے اور اِس میں رنگ برنگے برقی قمقموں
سے مختلف شبیھیں بھی بنائی جاتی ہیں، جِن میں سب سے مقبول 'سینتا کلاز'
ہی، جو 'فادر کرسمس' بھی کہلاتا ہی۔ساتھ ہی، کھلونے لیے سینتا کلاز کی
Sleigh جسے رنڈیئر Reindeerلیے بادلوں میں اڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن،
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ سینتا کلاز کا روپ دھار کر بچوں کے ساتھ
تصویریں بنواتے ہیں اور بعض مقامات پر تو زندہ رینڈیئر کرائے پر حاصل کیے
جاتے ہیں۔تیاریوں کے سلسلے میں لوگ نرسریوں سے 'کرسمس ٹری' خریدتے ہیں یا
پھولوں سے بنی سجاوٹ جسے Wreathبھی کہتے ہیں، جسے گھر کے سب سے بڑے
دروازے کے باہر آویزاں کیا جاتا ہی۔لیکن، سیاٹل میں ایک ایسی نرسری ہے
جہاں رینڈیئر کرائے پر ملتے ہیں!امریکہ میں کتے یا بلیوں کے سوا، کسی
اجازت نامے کے بغیر، کسی زندہ جانور کو یوں حاصل کرنا بے حد مشکل ہوتا
ہی۔ لیکن،سینتا کلاز کے پاس تو خود اپنے رینڈیئر ہیں!
کرسمس کا پورا موقعہ امریکہ میں سینتاکلاز کے گِرد گھومتا ہی۔ اگرچہ،
گرجا گھروں میں مذہبی تقریبات بھی ہوتی ہیں، مگر ان کا مرکز زیادہ تر
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)کی پیدائش کے حالات رہتے ہیں اور مسیحی عقیدے کے
مطابق وہ تین بادشاہ جو بچوں کے لیے کھلونے لائیں یا پھر دنبی، گدھے اور
اونٹوں جیسے جانور۔
سونیا کے کسان شوہر ان لوگوں میں سے ہیں جِن کے پاس اونٹ بھی ہیں۔ریاست
ِواشنگٹن، کینیڈا سے ملنے والی وہ امریکی ریاست ہے جہاں بے حد سردی ہوتی
ہی۔سونیا کے شوہر بن ہارٹ کہتے ہیں کہ اونٹ جسے ریگستانی جانور خیال کیا
جاتا ہی، بحر الکاہل کے شمال مغرب کی سردی خوب جھیل جاتا ہی۔لیکن، بڑے
جانور کے خرچے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ativity sceneکے لیے ایک اونٹ 500ڈالر
روزانہ کرائے پر دیا جاتا ہے اور آنے جانے کا خرچہ الگ، اور رینڈئیر کی
جوڑی 200ڈالر فی گھنٹا کرائیپر کم سے کم تین گھنٹے کے لیے دی جاتی ہی۔بچے
اور ان کے والدین باڑے کیگِرد چکر لگاتے ہوئے ان کے نام بھی سوچتے جاتے
ہیں اور سونیا بن ہارٹ کہتی ہیں کہ کرسمس سے ایک رات پہلے بچے اکثر ان
سے سوال کرتے ہیں کہ' یہ رینڈیئر اڑتے کیوں نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
صدر کی بیماری اور میمو گیٹ فوبیا
تحریر ----معظم رضا تبسم
میموگیٹ کیس میں سپریم کورٹ کاوفاق کو سننے کا فیصلہ خوش آئند ہے ۔ اس
قابل تحسین فیصلے کا ایک اور مثبت پہلوان لوگوں کو
بے نقاب کرگیا ہے جو صدر آصف علی زرداری کی بیماری کو سیاسی بحران بنا
کر پیش کررہے تھے ۔میمو گیٹ پر شور و غوغا کرنے والوں کو پاکستان اور
اسکی سیاسی تاریخ کو نہیں بھولنا چاہئی۔ ایسے میمو اور غیر ملکی مدد سے
اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوششیں مسلم لیگ کا تاریخی طرئہ امتیار رہا ۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد گورنرجنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم
بننے والے خواجہ ناظم الدین نے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے ملکہ برطانیہ
کو مداخلت کیلئے اپیل بھیج کر'' میمو ہیلپ لائن'' کی بنیاد رکھی ۔ میاں
نواز شریف نے اپنے بھاری مینڈیٹ والے دور حکومت میں کارگل جنگ اور پھر
ستمبر 1999ء میں امریکہ کو اسی میمو ہتھیار کے ذریعے اپنی حکومت بچانے کی
کوششیں کیں ۔ کارگل جنگ کے دوران اس دور کے امریکی صدر بل کلنٹن کے معاون
خصوصی بروس ریڈل جو اس واقعہ کا حصہ تھے اپنی تصنیف'' امریکی ڈپلومیسی
اینڈ 1999کارگل سمٹ ایٹ بلئیر ہائوس '' میں انکشاف کرتے ہیں کہ '' نواز
شریف نے کارگل جنگ کے موقع پر جون 1999ء میں امریکہ کو بیوی بچوں سمیت
واشنگٹن آنے کا پیغام بھجوا یا جو واضح اشارہ تھا کہ اگروہ کارگل معاملہ
حل کرنے میں کامیاب نہ رہے تو پاکستان واپس نہیں جا سکیں گے اور انکی
حکومت کی چھٹی کروا دی جائیگی ۔ ''
بروس ریڈل تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ کارگل مذاکرات میں نواز شریف نے ایک
نان پیپر معاہدہ بھی کیا جو خطے میں امریکی ترجیحات کو جاری رکھنے کیلئے
تھا مگر نواز شریف اس نان پیپر معاہدے پر عمل درآمد ہی نہیں کر سکی۔کلنٹن
انتظامیہ کارگل تنازعہ حل ہونے کے بعد ستمبر 99ء تک انتظار کرتی رہی
۔ستمبر میں نواز شریف نے شہباز شریف کو واشنگٹن بھجوایا ۔امریکی انتظامیہ
کا خیال تھا کہ شہباز شریف نان پیپر معاہدہ پر پیش رفت کیلئے بات چیت
کرنے آئے ہیں مگرشہباز شریف نے کلنٹن کی مذاکراتی ٹیم انڈرفرتھ اور بروس
ریڈل کو بتایا کہ انکی تو حکومت خطرے میں ہے اس لئے امریکہ مدد دے ۔ آسان
الفاظ میں اس کا مطلب یہ تھا کہ نوازحکومت بچانے کے لئے یعنی نواز شریف
حکومت کے خلاف متوقع سازش کو پاکستانی سیکورٹی اداروں پر اثر انداز ہوا
جائے اور اس میمو کا ہی نتیجہ تھا کہ کلنٹن نے اپنی ٹیم کو ہدایت دی کی
کہ نواز شریف کو پھانسی پر جھولنے سے بچایا جائے اوریوں امریکہ اور کو
عرب حکمرانوں کی مدد سے مچھروں والی جیل سے '' سرور پیلس '' منتقل کرنے
کا معاہدہ ہوا ۔
پیپلزپارٹی پر عوام میں موجود اعتماد متزلزل کرنے کیلئے آصف علی زرداری
پر ماضی میں بنائے گئے جھوٹے مقدمات جن کو بنانے والوں نے این آر او کے
ذریعے خود ساختہ تسلیم کیاکہ یہ سیاسی مقاصد کیلئے قائم کئے گئے تھے ۔این
آر او کو پھر متنازعہ انداز میں اچھالا گیا ۔اب میمو ایشو بھی ایوان صدر
کو نشانہ بنانے کیلئے نیا ہتھیار ٹھہرا۔
دیکھا جائے تو حسین حقانی کے حوالے سے جس میمو کا چرچا کیا جا رہا ہے ۔
اس کے کئی نکات پر جنرل پرویز مشرف اپنی کتاب میں اعتراف کر چکے ہیں ۔
دور مشرف کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی آن ریکارڈ تقاریر میں سب ہی نکات
موجود ہیں ان کی کسی بھی مرحلے پر نواز شریف یا کسی بھی اس دور کی
اپوزیشن جماعت نے تنسیخ نہیں کی۔ دوسری طرف کمیشن بنانے کا اختیار بھی
تاحال ایک بحث طلب معاملہ ہی۔
صدر آصف علی زرداری کی بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مصنوعی سیاسی بحران
پیدا کرکے پیپلزپارٹی کا عوام میں اعتماد متزلزل کرنے کی کوشش کی گئی یہ
گذشتہ ساڑھے تین سالوں میں روز کی کہانی ہے ۔ اب توتجزیہ کار اور سیاسی
حریف بھی اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ عوام سے منتخب حکومت اور پاکستان
کی تاریخ میں دوتہائی اکثریت سے منتخب کردہ سویلین صدر ا نتہائی نازک
حالات میں ملک کو کسی بڑے سانحے سے دوچار کئے بغیر ملک کو نہ صرف ترقی کے
راستے پر رکھا ، دہشتگردی کیخلاف کامیابیاں حاصل کیں ۔ جمہوریت کی بحالی
کے بعد عبوری دور میںپیپلزپارٹی کے بانی چیئر مین شہید ذوالفقار علی بھٹو
کا پاکستان کے عوام کو دیا 1973 کا آئین بحال کیابلکہ اس آئین میں تشکیل
کے مرحلے پر کئے زیر التواء وعدوں کو بھی پورا کردیا ۔ صوبائی خودمختاری
دیکر وفاق پاکستان کو مضبوط کرنے کیلئے آئینی حقوق کی صوبوں کو منتقلی کا
عمل شروع کردیا ۔پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کیلئے مفاہمت کا
کلچر رائج کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار صدر مملکت نے اپنے
اختیارات پارلیمنٹ کو از خود واپس کئے ، پارلیمنٹ خود مختار بنائی
۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو ا کہ اٹھارویں ترمیم کے نتیجہ
میں بے اختیار ہونے والا صدر عوام کے اعتماد کی حقیقی طاقت رکھتا ہے جو
کسی بھی سیاسی رہنما کا سب سے بڑا ہتھیار بھی ہوتا ہے اور ڈھال بھی۔اسے
اقتدار کو بچانے کیلئے امریکی مدد کی ضرورت کیوں ہوگی جبکہ پیپلزپارٹی کی
طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔جب میمو ایشو پر سپریم کورٹ میں وفاق کا موقف
آئے گا ، ایبٹ آباد کمیشن اور پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی میں صدر مملکت
کے بیانات سامنے آئیں گے تو یقینا عوامی جمہوری حکومت کیخلاف ان سازشوں
کی مزید گرہیں کھلیں گی۔
٭٭٭
پاک بھارت تعلقات اور کشمیری قیادت
تحریر سردار ایم رزاق انقلابی
بھارت اور پاکستان کے تعلقات گزشتہ چونسٹھ برسوں میں کبھی بھی مثالی اور
خوشگوار نہیں رہی۔ قیام پاکستان کے اڑھائی ماہ بعد ہی ستائیس اکتوبر
1947ء کو دونوں ممالک کی افواج کا کشمیر میں ایک دوسرے کے ساتھ آمنا
سامنا ہوگیا تھا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے روزاول سے ہی عالمی سامراج کے
اشاروں پر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کشیدگی اختیار کی اور اس کا خمیازہ آج
پاکستانی قوم بھگت رہی ہی۔ بھارت کے ساتھ چار جنگیں بھی پاکستان نے کیں
لیکن پاکستان مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر سکا۔ 1999ء میں پاکستان کے وزراء
اعظم میاں محمد نوازشریف نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی
وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی اور لاہور میں
دونوں وزیراعظم کے درمیان ہونے والی بات چیت میں یہ طے پایا کہ دونوں
ممالک اپنے تمام تر اختلافات پر بات چیت کے ذریعے حل کرینگی۔ مگر جنگ باز
قوتوں نے اس بات چیت کو سبوتاژ کرنے کیلئے پہلے کارگل میں جنگ چھیڑی اور
پھر ملک کے وزیراعظم میاں نوازشریف کو ہائی جیکر بنا کر جلاوطن کر دیا۔
اس سانحہ کے بارہ برس بعد پاکستان کی موجودہ حکومت نے ایک بار پھر بھارت
کے ساتھ اپنے معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا فیصلہ کیا اور
بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیا۔ ابھی اس فیصلے کی سیاہی خشک نہیں ہوئی
تھی کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے سر پر بھی خطرات منڈلا رہے ہیں۔ آج
کوئی بھی یہ دعوے سے نہیں کہہ سکتا کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کریگی۔
دراصل خطے میں جنگ باز قوتیں جو دفاعی سودوں میں اربوں روپے کا کمیشن
کھاتی ہیں۔ وہ یہ کس طرح برداشت کر سکتی ہیں کہ برصغیر میں امن قائم ہو۔
ان جنگ باز قوتوں نے نام نہاد کشمیری قیادت کو بھی ہڈی ڈال دی ہے کہ وہ
اس پر شور مچائیں۔ آج ان نام نہاد لیڈروں نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے
کہ دونوں ممالک تجارت کیوں کرنے لگے ہیں۔ کشمیر کے یہ لیڈر جو شہیدوں کا
خون بیچ کر اپنے بنک بھر رہے ہیں۔ انہیں اس سے کیا غرض ہو سکتی ہے کہ لوگ
روٹی کھائیں یا بھوک سے مر جائیں۔ آج بھارت کے زیر قبضہ پونچھ شہر میں
چینی پنتیس روپے کلو ہے جبکہ دس کلومیٹر کے فاصلے پر آزادکشمیر کے قصبے
عباسپور میں اسی روپے کلو ہی۔ پونچھ شہر میں ٹماٹر بیس روپے کلو ہیں اور
ہمارے ہاں ایک سو بیس روپے کلو۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان تجارت ہوتی ہے
تو اس کا فائدہ پاکستانی عوام کو ہوگا جب غریب کے بچے رات کو بھوکے سوتے
ہیں ان کے پیٹ میں روٹی کا نوالہ چلا جائے گا۔ بس کشمیری رہنمائوں کو یہ
بات برداشت نہیں ہو رہی ورنہ ان بدختوں جن کے سیاہ کارناموں پر دنیا ہنس
رہی ہی۔ یہ بھارت کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے تو پاکستان کو مجرموں
کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کیا ہوا ہی۔ ڈاکٹر غلام نبی فائی نے یہ تسلیم
کرلیا ہے کہ وہ آئی ایس آئی سے پیسے بٹور رہا تھا۔ اس کے اس اعتراف نے
کشمیریوں کے سرشرم سے جھکا دیئے ہیں۔ پاکستان کے سیاستدان وینا ملک کو
کپڑے پہنانے کی بجائے ان بے حیاء کشمیری لیڈروں کیلئے بھی کسی پیرہن کا
انتظام کر لیں۔ حکومت پاکستان نے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے کر جس
سچائی کو قبول کیا ہی۔ دنیا کا ہر باشعور انسان اس کو خوش آئند اقدام
قرار دیتا ہے سوئے پاکستان کے حساس اداروں کی۔ پے رول کر دیہاڑی دار
کشمیری قیادت کے پاکستانی عوام کو چاہئے کہ وہ ایسے نوسربازوں پر عرصہ
حیات تنگ کر دیں جو پاکستان کے غریبوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین رہے
ہیں کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی وطن کے نام پر۔ اس حقیقت سے دنیا کی
کوئی طاقت انکار نہیں کر سکتی کہ محاذ آرائی سے پاکستان بھارت سے ایک انچ
جگہ بھی نہیں چھین سکتا۔ پاکستان نے چار بار بھارت سے جنگ کر کے دیکھ لیا
ہے کہ وہ کشمیر کو چھین نہیں سکتا رائے شماری بھارت نہیں کروا رہا اور
تقسیم کشمیریوں کو قبول نہیں تو اس صورت میں مسئلہ کشمیر کا ایک ہی حل رہ
جاتا ہے وہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی ریاست جموں کشمیر کی
آزادی کے راستے میں رکاوٹ پاکستان کی جنگ باز تھیوفاشسٹ قوتیں ہیں انہیں
خطرہ ہے کہ اگر کشمیر آزاد ہو گیا تو وہ کس نام پر زندہ رہیں گی۔ کشمیر
کی آزادی کے ساتھ ہی بھارت سے محاذ آرائی کا خاتمہ ہو جائیگا جب بھارت سے
دوستانہ تعلقات ہونگے تو پھر ساٹھ فیصد بجٹ دفاع کے نام پر استعمال نہیں
ہوگا پھر کروڑ کمانڈروں کا مستقبل ختم ہو جائیگا۔
جس شخص کے دل میں انسانوں کیلئے رحم کی ذرا برابر بھی جگہ ہے تو اس کا
فرض ہے کہ وہ ان جنگ باز قوتوں اور ان کے خاشیہ برداروں کے جرائم کو بے
نقاب کرے تاکہ اس خطے کے عوام کے چھینے ہوئے حقوق انہیں مل سکیں۔
٭٭٭٭


--
Rizwan Ahmed Sagar
Bhalwal(Sargodha)
03458650886/03006002886
Email.sagarsadidi@gmail.com
http://sargodhatv.blogspot.com/
http://bhalwalnews.blogspot.com
http://urduartical.blogspot.com <http://urducolumn.blogspot.com/>

No comments:

Post a Comment