پروفیسرڈاکٹر ہارون الرشید تبسم
319 وائی علامہ اقبال کالونی سرگودھا
تاریخِ عالم گواہ ہے کہ قوموں کی لمحہ بھرکی غلطی صدیوں کا پچھتاوا بن جاتی ہے اور قدرت ایسی اجتماعی غلطیاں معاف نہیںکرتی ۔ پاکستان کا قیام تاریخ عالم کا وہ اہم واقعہ ہے جسے کبھی فراموش نہیںکیا جاسکتا ۔ آگ و خون کے دریاعبور کیے ، بارود کے سائے تلے سفر کرنے پڑے ، اپنوں کے لاشے اٹھاکر منزل کی طرف عازم سفر ہوئے ۔ لاتعداد قربانیوں کے بعدبرعظیم پاک و ہند کے مسلمان 14 اگست 1947 ء کو ایک آزاد اورخود مختار مملکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت نے شاعر مشرق ڈاکٹر علا مہ محمد اقبال کا خواب شرمندہ تعبیر کر دیا۔بابائے قوم محمد علی جناح آزادی کی حسین و جمیل فضا سے زیادہ عرصہ فیض یاب نہ ہو سکے ۔وہ ابھی ٹوٹے ہوئے تار جوڑ رہے تھے کہ فرشتہ اجل نے زندگی کا ساز ہی ان سے چھین لیا اور تاریکجا ہونے کے بجائے بکھر گئے ۔ محسن آزادی کے وصال سے پاکستان کا وجود مطلب پرستوں کے ہاتھ آگیا۔دوسری طرف بھارت کی رگ دشمنی پھڑک اٹھی ۔ مختلف محاذوں پر بھارت نے سرحدی خلاف ورزی شروع کردی ۔ہماری قیادت مصلحت اندیش رویہ اختیار کرتی رہی ۔آزادی کے صرف 18 سال بعدیعنی 6 ستمبر965 کو بھارت نے کسی اعلان کے بغیر ہماری سرحدوں پر یلغارکر دی۔ پاکستان کے غیور عوام او رمسلح افواج سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ۔دس گناطاقتور دشمن کو جذبہ قوت ایمانی سے یوں شکست دی کہ میدان بدر کی یاد تازہ ہوگئی۔ اس شکست کے بعد بھارت انتقام کی سوچتا رہا جبکہ پاکستانی قوم فتح کے گھمنڈ میںخواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگی ۔
اہل پاکستان ان سازشی چنگاریوں سے نا آشنا رہے جو طوفان کا روپ دھارنے والی تھیں ۔ فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان صدر پاکستان ( 27 اکتوبر 1958ء ۔ 25 مارچ 1969) اپنے اقتدار اورفتوحات کے جشن میں مشغول ہوگئے اور ان سرگرمیوں سے بے خبر تھے جو
ا ندرونی محاذپر جاری تھیں ۔راولپنڈی اور لنڈی کوتل کے اچانک واقعات نے طالب علموں کو سڑکوں پرلے آئی۔سیاسی جماعتیں خفیہ طور پر طالب علموں کو اپنے مقاصد کے لیے آلہ کار بناتے رہی۔جنوری 1969ء کو آٹھ سیاسی جماعتوں نے ایوب خان کی حکومت کے خاتمہ کے لیے سیاسی محاذ بنا لیا ۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ایوب خان کے تمام حربے ناکام ہوئے ۔5 مارچ 1969ء کو دوسرے مارشل لاء کا سورج طلوع ہوا اور جنرل یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے خود چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریڑ کے اختیارات سنبھال لیی۔ حمید خان ڈپٹی کمانڈر انچیف وائس ایڈمرل ایس ایم احسن ، امیر البحر ائیر مارشل ، نور خان کمانڈر انچیف فضائیہ ، نے نائب ناظمین اعلیٰ مارشل لاء کا قلم دان سنبھال لیا۔ اسی روزلیفٹینٹ عتیق الرحمن مغربی پاکستان کے جبکہ جنرل مظفر الدین مشرقی پاکستان کے ناظم مارشل لاء مقرر ہوئی۔یحییٰ خان نے 26 مارچ 1969 ء کو قوم سے خطاب فرمایا اور کئی ایک پالیسیوں کا اعلان کیا ۔ 23 اکتوبر 1969 ء کو شیخ مجیب الرحمن نے لندن میں 6نکات کی منظوری پر زور دیا ۔ بھارت مشرتی پاکستان میں مداخلت کو حق سمجھنے لگا۔ ہندٶ اساتذہ کرام نے مشرقی پاکستان میں نظریہ پاکستان کے منافی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ معصوم مسلمانوں بچوں کو مختلف تعلیمی حربوں سے ہندٶانہ ثقافت سے روشناس کرانے کی کوشش کی جانے لگی۔ نفرت ، حسد ، لالچ، بعض ، کینہ پروری کی چنگاریاں شعلوں کی صورت بھڑکنے لگیں ۔ مشرقی پاکستان کے حالات دگر گوں ہونے لگے ۔ 8 اپریل 1969 ء کو صدر نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو گورنر مقرر کر دیا ۔ مقام افسوس کہ بیس اپریل 1970ء کو مولانا بھاشانی نے حکومت پاکستان کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا جس کے نتیجہ میں 25 اپریل 1970 ء کو ڈھاکہ ریڈیو اسٹیشن نے نعت رسول مقبول ؐاور کلام اقبال اردومیں نشر کرنے سے معذرت کر لی ۔ جون 1970ء میں عوامی لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی نے عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ۔ جنرل یحییٰ خان نے 5 اکتوبر 1970 ء کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کرانے کااعلان کر دیا۔یحییٰ خان نے وعدہ کے مطابق 7 دسمبر 1970 کو عام انتخابات کروائے ۔ قومی اسمبلی کی صوبہ وار نشستوں کی تقسیم کچھ یوں تھی پنجاب 85 ، سندھ 28 ، سرحد 19، بلوچستان 5 ، مشرقی پاکستان 169یعنی 313 نشستیں مقررتھیں ان میں 13 نشستیں خواتین کی بھی شامل ہیں ۔ مذکورہ انتخابات میں عوامی لیگ 151 اور پیپلز پارٹی 81 نشستوں پر مشرقی و مغربی پاکستان میں نمایاں کامیاب ہوئیں ۔ کونسل لیگ نے 7 ، قیوم لیگ نے 9 آزادارکان نے 16 جمعیت العلماء اسلام نے 7 جبکہ جماعت اسلام نے 4 کنونشین مسلم لیگ نے 3 اور جمہوری پارٹی نے صرف ایک نشست حاصل کی۔صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب 17 دسمبر 1970ء کو ہوا جس کے لیے مشرقی پاکستان 310، پنجاب 186، سندھ 62 ، بلوچستان 42 ، سرحد 21 ، یعنی کل 621 نشستیں مخصوص تھیں جبکہ ان میں 21 نشستیں خواتین کے لیے واقف تھیں ۔ صوبائی اسمبلیوں میں عوامی لیگ نے 269جبکہ پیپلز پارٹی نے 148نشستیں حاصل کیں ۔ اس طرح مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی جبکہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کر لی ۔9 دسمبر 1970 ء کو ذوالفقارعلی بھٹو نے اعلان کیا کہ عوامی لیگ اکثریت کے بل بوتے پر نیا آئین نہیں بنا سکتی ۔ شیخ مجیب الرحمن نے 7 جنوری971ء کو انقلاب برپا کرنے کی مہم شروع کر دی ۔ مشرقی پاکستان کی حالت دگرگوں ہوتی گئی ۔ 20جنوری 1971ء کو جب کشمیری ہاشم اور اشرف سری نگر سے امرتسر جانے والے ایک بھارتی طیارے کو اغوا ء کر کے لاہور ائیر پورٹ پر لے آئے تو بھارت دشمنی کی خفیہ سازش منظر عام پر آگئی ۔طیارے میں6 مسافر اور 4 افراد پر مشتمل عملہ موجود تھا ۔اس طیارے کو بم سے اڑا دیا گیا۔ خود ساختہ سازش کے نتیجہ میں 3 فروری971 ء کو بھارت نے پاکستانی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدوں بند کر دیں ۔8 فروری 1971ء کو چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقارعلی بھٹونے اقبال پارک لاہو رمیں اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ لگا دیا ۔جس کے جواب میں یکم مارچ 1971ء کوقومی اسمبلی کا اجلاس منسوخ ہوتے ہی شیخ مجیب الرحمن نے ہڑتال کی کال دی ۔ اسی روز ایڈمرل احسن کوگورنر مشرقی پاکستان سے ہٹا دیا گیا اورصاحبزادہ یعقوب خان نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔مارچ 1971ء کو عوامی لیگ نے یوم سیاہ منانے کا اعلان کر دیا ۔ نفرت کی آگ کا اندازہ 23 مارچ 1971ء کو کھل کر سامنے آیا ۔ جب مشرقی پاکستان میں یوم پاکستان کے بجائے یو م مزاحمت منایا گیا ۔5 مارچ971ء کو جنرل ٹکا خان نے تخریب کاروں کے خلاف آپریشن شروع کیا ۔ 8 اکتوبر 1971 ء کو پیپلز پارٹی کے چیئر مین ذوالفقارعلی بھٹو نے ملتان میں واضح کر دیا کہ اگر جنگ جیتنا ہے تو اقتدار ہمارے حوالے کر دو۔ 3 جولائی 1971ء کو بھارتی فضائیہ نے مشرقی پاکستان پر حملوں کاآغاز کر دیا۔0 اگست 1971ء کو پائلٹ آفیسر راشد منہاس نے جام شہادت نوش کیا ۔4 ستمبر 1971 ء کو بھارتی فوج نے ساٹھ افرادکو سفر آخرت کی راہ دکھائی ۔ سابق گورنر عبدالمنعم خان قاتلانہ حملہ کے بعد شہید ہوگئے ۔ 4 نومبر 1971 ء کو امریکی صدر ریچرڈ نکسن اور بھارتی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کے درمیان مذاکرات ہوئے ۔2نومبر 1971 ء کو بھارتی فوج مشرقی پاکستان میںداخل ہوگئی۔ پاکستان میں ہنگامی صورت حال کا نفاذ کر دیا گیا ۔ تقریباً سب محاذ وں پر بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن بنگالیوں کی ہمدردیاں بھارتی فوج کے ساتھ تھیں ۔ 3 دسمبر 1971ء کو بھارت نے مغربی پاکستان پر بھی اپنے حملوں کا آغاز کر دیا ۔ مغربی محاذپر تو پہلے ہی دن پاک فضائیہ نے بھارت کے پچاس طیارے زمین بوس کر دئیی۔ راقم الحروف (ہارون الرشید تبسم ) نے سول ڈیفنس کے محاذ سے یہ صورت حال اپنی آنکھوں سے دیکھی کہ صرف 10 دسمبر کو سرگودھا پر درجنوں بم گرائے گئے ۔ بموںکی بارش سے شاہینوں کے جذبے میں کمی نہ آئی یہ صورت حال ملک کے مختلف شہروں میں تھی ۔ بھارتی فضائیہ نے شہری آبادی کو نشانہ بنا کر اپنی بربریت کا ثبوت دیا ۔ عالمی فضائی جنگ کے اصول کی خلاف ورزی پر اقوام متحدہ بھی خاموش تماشائی بنی رہی ۔ جنگ و جدل کا یہ سلسلہ جاری تھا لیفٹنٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی کو صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان ہدایات دیتے رہے ۔اقوام متحدہ او ردوست ممالک جنگ بندی کے لیے کوششیں کر تے رہے لیکن کوئی مثبت پیش رفت نہ ہو سکی۔عرب ممالک کے علاوہ چنداور ممالک نے ان حالات میں پاکستان کی مدد کی یقین دہانی کروائی ۔امریکہ نے بحری بیڑہ بھیجنے کا وعدہ کیا ۔ مقام افسوس یہ وعدے کاغذی کشتیوں کی مانند ثابت ہوئے ۔ بحری بیڑے کی آمد سے پہلے ہی ہماری غیرت و حمیت کا بیڑا ڈوب چکا تھا۔ 16دسمبر 1971 ء کو جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیاگیا ۔ ریڈیو اور ٹی وی پر اعلان ہوا کہ پاک بھارت جنگی کمانڈروں کے درمیان ایک سمجھوتہ کے تحت مشرقی پاکستان میں جنگ بندی ہوگئی ہے ۔ بھارتی افواج نے ڈھاکہ شہر پر قبضہ کر لیا اس طرح بنگلہ دیش دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا ۔
اس گھر کوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سی
جنرل نیازی سمیت 93 ہزارپاکستانی سازشوں کی قید میں ڈال دیئے گئے ۔ بھارتی کمانڈر جنرل جگجیت سنگھ اڑوڑا کی آمد پر جنرل نیازی کو سلوٹ کرنا پڑا ۔ 93 ہزار نہ جھکنے والے سر، ایک سازش کی دہلیز پر سر نگوں ہوگئے ۔ 20 دسمبر 1971ء کونہایت اجلت میں جناب ذوالفقارعلی بھٹو کو اقتدار مل گیا۔ انھوں نے صدر پاکستان کے علاوہ پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ بھی سنبھالا ۔ جنرل یحییٰ خان ، ذوالفقارعلی بھٹو ، مولانا بھاشانی ، مجیب الرحمن نے طوفان کی حقیقت کو افسانے کا روپ دے دیا ۔ 16 دسمبر 1971ء ہماری تاریخ کا سیاہ ترین د ن ہے جب ہم نے اپنی غیرت و حمیت ایک میز پر رکھ دی ۔ غلط منصوبہ بندی ، خود غرضی ، خود فروموشی ، ہٹ دھرمی اور اپنی انا کی دہلیز پر ہم نے لاکھوں شہیدوںکالہوقربان کر دیا۔ پاکستان دولخت ہوگیا ۔ ہم نے قائد اعظم کے پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ آج 40 سال گزرنے کے باوجود ہر سال6 دسمبر کو ہمارے زخم ہرے ہو جاتے ہیں کہ ہم کیا تھے اور آج کہاں پہنچ گئے ہیں ۔ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سکھا آج بچے کھچے پاکستان میں چار قومیتوں کانعرہ لگایا جارہاہے ۔ صوبائی تعصب بڑھتا جا رہاہی۔سیاسی رسہ کشی جاری ہے ۔اقتدار کی جنگ میں ملکی مفادات قربان کئے جا رہے ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں نے نظریہ پاکستان کو پس پشت ڈال دیا ہی۔ ایبٹ آباد ، نیٹو حملے ،اورڈرون حملوں نے عدم تحفظ کی فضا پیدا کردی ہے ۔ یہ حالات مشرقی پاکستان ایسے ہی تو ہیں ۔ ان حالات میں ہمیں منتشر ہجوم کو ایک قوم بنانا ہی۔میںمیں کا شور ہے ۔ہم ہم کی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ دہشت گردی ،امریکہ گردی او رمفاد گردی نے قومی تشخص کا جنازہ نکال دیاہے ۔زندہ قو میں 16 دسمبر ایسے سانحات سے سبق سیکھتی ہیں لیکن افسوس ہم مجموعی طور پر احسان فراموش قوم ثابت ہو رہے ہیں ۔ 16 دسمبر کا تقاضا ہے کہ ہم پاکستانی مفادات کے لیے زندہ رہیں ۔ پاکستان سے بے وفائی خودی کی موت ہے ۔ خودی سے روگردانی موت ہے ۔ ذلت ہے ۔رسوائی ہے اوراپنی تباہی ہے
افسوس تو اِسی ہے کہ رونا بھی ہے یہی
ہم سے زمیں کے ٹکڑے سنبھالے نہیں گئے
٭٭٭٭
Rizwan Ahmed Sagar
Bhalwal(Sargodha)
03458650886/03006002886
Email.sagarsadidi@gmail.com
http://sargodhatv.blogspot.com/
http://bhalwalnews.blogspot.com
http://urduartical.blogspot.com <
No comments:
Post a Comment