''معافی سے لاشیں زندہ نہیں ہوتیں''
(ڈاکٹر مرتضیٰ مغل)
جارحیت کا ارتکاب کرنے کے بعد اب امریکہ اور اس کے حواریوں کی خواہش ہے
کہ زخمی پاکستان آہ و بکا کرنا بھی بند کردی۔پاکستان کی زبان بندی کیلئے
ایک طرف امریکی امداد جاری رکھنے کی ''نوید'' سنائی جارہی ہے اور دوسری
طرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو غیر محفوظ قرار دینے کے لئے واویلا شروع
کردیا گیا ہی۔ مقصد یہ کہ ایسا پروپیگنڈہ کیا جائے جس سے پاکستان سہم
جائی۔ دفاعی پوزیشن میں لاکر پھر امریکہ ہمارے ایٹم بم کے محفوظ ہونے کی
ضمانت دے گا اور یوں پاکستانیوں کی ہمدردیاں حاصل کر لے گا۔آج کل مغربی
میڈیا کے خیال میں ہمارا ایٹم بم کسی لمحہ بھی طالبان کے ہاتھ لگ سکتا
ہی۔ پاکستان کیخلاف بھرپور میڈیا وار شروع ہوچکی ہی۔بون کانفرنس میں شرکت
نہ کرنے کی سزا دینی ہی۔شمسی ایئربیس خالی کرانے پر سبق سکھانا ہی۔نیٹو
کی سپلائی لائن بند کرنے کا حساب لینا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ
کو دی گئی کھلی چھٹی ختم کرنے پر پاکستان کا بازو مروڑنا ہی۔ ان مقاصد کے
حصول کے لئے حسب سابق کابل بڑھ چڑھ کر حصہ ڈال رہا ہی۔تیس لاکھ افغان
مہاجرین کو ''عہد مواخات'' کے جذبے سے سرشار ہو کر پاکستان نے نہ صرف
پناہ دی بلکہ اپنے اموال و اسباب میں شراکت داری کے مواقع بھی دیئے ۔آج
بھی لاکھوں افغانی اسی سرزمین پر بستے ہیں اور حامد کرزئی نہ چاہتے ہوئے
بھی اس حقیقت کا اعادہ کر جاتے ہیں۔لیکن جواب میں پاکستان کو مل کیا رہا
ہی۔مزار شریف پر خودکش حملے کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈال دیا گیا۔ امریکی
وزیرخارجہ نے کرزئی کے اس بال پر چھکا لگاتے ہوئے پاکستان کو نصیحت کر
ڈالی کہ وہ جلد از جلد ان شدت پسندوں کو کٹہرے میں لائے جنہوںنے یوم
عاشورہ کے موقع پر خودکش حملے کئے تھی۔امریکیوں کا تکبر ہی انہیں لے ڈوبے
گا۔ہمارے عہد کے دور اندیش دانشور نسیم انور بیگ کہتے ہیں کہ امریکہ اور
چین میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ امریکہ اپنی طاقت پر انحصار کرتا ہے جبکہ
چین اپنے اثرورسوخ کو بڑھاتا ہی۔عالمی معاملات میں ڈکٹیشن کا کلچر امریکہ
نے ہی متعارف کروایا ہی۔ امریکیوں نے غرور کے زیر اثر کتنے ہی بلنڈرز کئے
اور امریکی حکومت اور امریکی عوام کے لئے عالمی برادری کے دلوں میں نفرت
کو فروغ دیا ہی۔حیرت ہے کہ سی آئی اے کی یرغمال امریکی پالیسیوں کے نتیجے
میں امریکہ نے جس جس ملک کیخلاف جارحیت کی وہاں سے معافی مانگ کر ہی واپس
آیا ہی۔پاکستان نے اب کی بار مستقبل کے امریکی عزائم کو بھانپ لیا ہے اور
ہمارے فوجی کمانڈروں نے لگی لپٹی رکھے بغیر دنیا پر واضح کردیا ہے کہ
سلالہ چیک پوسٹوں پر حملہ نیٹو نے نہیں بلکہ امریکہ کی سپیشل فورسز نے
کیا ہے اور یہ کسی غلط فہمی نہیں بلکہ خوش فہمی کی بنیاد پر کیا گیا
ہی۔امریکی ڈھٹائی کی حالت یہ کہ ان کا کابل میں متعین کمانڈر آئندہ بھی
ایسے حملوں کا عندیہ دے رہا ہے اور امریکیوں کی اپنی تحقیقات میں امریکہ
ہی اس حملے کا ذمہ دار ثابت ہوجائے تو امریکی آئندہ ایسے حادثات سے بچنے
کی صرف کوشش کریں گے یعنی اپنے ذمہ داروں کو کوئی سزا نہیں دیں گی۔ اور
وہ سزا دے بھی کیسے سکتے ہیں کیونکہ پاکستان پر حملہ کسی معمولی امریکی
افسر کی کوتاہی کے سبب نہیں کیا گیا بلکہ بقول ہمارے ڈی جی ایم او ایک
بڑے پلان کے حصے کے طور پر کیاگیا ہی۔
اسلامی دنیا سے شکوہ رہے گا۔پوری پاکستانی قوم ہر طرح کے اختلافات بھلا
کر امریکی جارحیت کیخلاف سراپا احتجاج ہی'لیکن اسلامی دنیا امریکہ سے
خوفزدہ یا محتاط ہے کہ لفظی ہمدردی کے چند بول بھی سامنے نہیں آئی۔او آئی
سی کے ایک پھسپھسے سے بیان کے علاوہ وہ ممالک جن کے نام پر ہم جانیں
قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں وہ ہمارے دکھ بانٹنے بھی نہیں
آئی۔امریکہ کی مذمت تو دور کی بات ہمارے ساتھ اظہار ہمدردی تو کیا جاسکتا
تھا! ہماری مدد کو چین آگیا'روس نے بہت اچھا بیان دیا۔بھارت کے پاس موقع
تھا کہ وہ پاکستانیوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکتا تھا لیکن دشمن تو دشمن
ہوتا ہے ہمیں اس سے ایسے کسی عمل کی توقع ہی نہیں لیکن ہمارے اپنوں کو
کیا ہوا ؟
اطلاعات ہیں کہ ترکی اور سعودی عرب ہمیں صلح کے نام پر امریکی دبائو میں
لانا چاہتے ہیں۔خدارا وہ اگر الگ تھلگ ہیں تو پھر الگ تھلگ ہی
رہیں۔پاکستانی قوم نے اپنی جنگ لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہی۔
مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستانی حکومت'اپوزیشن اور فوج اپنی خودمختاری کے
فلسفے پر قائم رہی تو متکبّرامریکہ معافی مانگے گا۔منتیں کرے گا اور
''ترلی''ڈالے گا۔لیکن بقول وزیراعظم ''معافی سے لاشیں زندہ نہیں ہوتیں''
اور پاکستان کو امریکہ کیلئے اپنوں کا مزید خون نہیں بہانا۔ورنہ شہیدوں
کا لہو ہمارے دامن پر اور قبروں سے اٹھنے والے ہاتھ ہمارے گریبانوں پر
ہوں گے
No comments:
Post a Comment