Wednesday, December 28, 2011

متنازع میمو:سول و عسکری قیادت میں تناو۔چودھری احسن پر یمی

///////////////////////////////////////////
متنازع میمو:سول و عسکری قیادت میں تناو۔چودھری احسن پر یمی

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر اسمبلیاں اپنا کام احسن طریقے
سے کر رہی ہوتیں تو میمو جیسے معاملات کو سپریم کورٹ میں نہ لایا جاتا۔گزشتہ
بدھ کو سپریم کورٹ میں متنازع میمو سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ جس طرح کرائے کے بجلی گھروں، ریلوے
اور دیگر اداروں سے متعلق معاملات سپریم کورٹ میں لائے گئے اسی طرح اس میمو سے
متعلق بھی حقائق کو چھپانے نہیں دیا جائے گا۔ سماعت کے موقع پر امریکہ میں
پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے ان درخواستوں کے
ناقابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی عسکری قیادت اور
حکومت میں تناو پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے متنازع میمو کے اصل حقائق سامنے
نہیں آ سکتے ہیں۔عاصمہ جہانگیر نے مزید کہا کہ ان کے موکل کو قربانی کا بکرا
بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس میمو سے متعلق تحقیقات کے لیے قومی سلامتی
سے متعلق پارلیمان کی کمیٹی ہی اصل فورم ہے اور اس میمو سے متعلق تحقیقاتی
کمیٹی پر عدم اعتماد دراصل پارلیمان پر عدم اعتماد ہے۔بینچ میں موجود جسٹس
جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اس متنازع میمو کی پارلیمان سے تحقیقات کے لیے
وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے خط لکھا جو خود اس پارلیمان کو کم تر کرنے کے
مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم بھی پارلیمان کو ڈکٹیشن نہیں دے
سکتے۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ان کا موکل اس پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش
ہونے کو تیار ہے اور وہاں سے ان کے موکل کی داد رسی نہیں ہوتی تو پھر سپریم
کورٹ سے رجوع کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات سے وہ حقائق
سامنے نہیں آ سکتے جو پارلیمان کی تحقیقاتی کمیٹی سے سامنے آ سکتے ہیں جس پر
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں حقائق کو چھپانے نہیں دیا جائے گا۔چیف
جسٹس کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اس میمو کے وجود کے بارے میں
کہا ہے اور تمام متعلقہ افراد اس کی تحقیقات چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاق
نے بھی اپنے بیان حلفی میں اس میمو کی تردید نہیں کی جبکہ صدر نے اس میمو سے
متعلق ابھی تک جواب داخل نہیں کروایا۔عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ میمو ایک
سیاسی معاملہ ہے اور کسی بھی معاملے کے سیاسی اور غیر سیاسی ہونے میں بڑا
باریک فرق ہے اس لیے اس کی سماعت سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔چیف
جسٹس کا کہنا تھا کہ جب کوئی معاملہ ملکی سلامتی سے متعلق ہو تو وہ کیسے سیاسی
ہو سکتا ہے۔حسین حقانی کی وکیل کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالت
درخواست گزاروں کے موقف سے پہلے ہی متاثر نظر آتی ہے اور ایسی صورت میں انہیں
اپنی درخواست میں تعصب کا الزام بھی لگانا پڑے گا۔عاصمہ جہانگیر نے اس موقع پر
کہا کہ عدالت وفاق اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع
پاشا کو میمو سے متعلق سرگرمیاں بتانے کا حکم دے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی
کے ڈائریکٹر جنرل نے عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں غیر ملکی اخبار
اور غیر ملکی صحافی کو تو فریق بنایا ہے لیکن اس تنازع کے مرکزی کردار منصور
اعجاز کو فریق نہیں بنایا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ عدالت اس معاملے کی چھان بین
کرے کہ احمد شجاع پاشا نے امریکی شہری منصور اعجاز سے کب کہاں اور کیوں ملاقات
کی۔سپریم کورٹ نے عاصمہ جہانگیر سے کہا کہ وہ انتیس دسمبر تک اپنے دلائل مکمل
کر لیں جبکہ اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق کا کہنا تھا کہ وہ وفاق کی طرف سے
مزید دلائل دینا چاہتے ہیں۔واضح رہے کہ مذکورہ سماعت سے ایک روز قبل سپریم
کورٹ میں متنازع میمو کے مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل مولوی انوار
الحق نے کہا تھا کہ وفاق کے نزدیک میمو صرف ایک کاغذ کا بے وقعت ٹکڑا ہے اور
اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔گزشتہ منگل کو سماعت کے موقع پر انہوں نے عدالت سے
دوبارہ درخواست کی وہ اس سلسلے میں دائر درخواستیں مسترد کر دے۔جبکہ پاکستان
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ انہوں نے متنازعہ میمو
سکینڈل کے سلسلے میں کسی ذاتی سیاست یا فائدے کی خاطر نہیں بلکہ ملک و قوم کے
مفاد میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکٹھایا ہے۔میاں نوازشریف نے گزشتہ بدھ کو
پشاور میں مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا کی صوبائی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر
رہے تھے۔میا ں نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ ایک نئے پاکستان کے قیام کے لیے
جدوجہد کا آغاز کر رہے ہیں اور اس میں پشتون ان کا ساتھ دیں۔انہوں نے کہا کہ
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پشتونوں کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے، قبائلی علاقے تباہ
ہوئے ہیں، پینتیس ہزار لوگ ہلاک اور ساٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے
پشتونوں کو ان کے اس صبر و ہمت پر سلام پیش کیا۔مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا
تھا کہ موجودہ حکمرانوں نے ملکی پالیسوں کو تبدیل کرنے کی بجائے مشرف کی
پالیسوں کو جاری رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک کی خودمختاری بری طرح پامال ہو
رہی ہے۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اپنے ہی ملک سے ڈرون حملے ہو
رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'حکمرانوں کی جانب سے ڈرون حملوں کی مزمت بھی کی
جاتی ہے لیکن حکومت صوبہ بلوچستان سے اڑنے والے ڈرون طیاروں کو روک نہیں
سکتی۔'نواز شریف نے مزید کہا کہ مہران بیس پر ہونے والے حملے کے بارے میں
تاحال کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں انہوں نے پوچھا کہ 'یہ حملہ کس طرح ہوگیا
اور کون لوگ اس میں ملوث تھے؟' انہوں نے کہا کہ اس حملے کے باعث ملک کو کروڑوں
روپے کا نقصان ہوا۔انہوں نے کہا کہ 'ہم نے اس واقعہ کی انکوائری کی بات کی
لیکن ابھی تک کوئی انکوائری نہیں ہوئی اور اسی طرح سانحہِ مشرقی پاکستان کی
انکوائری بھی سردخانہ میں پڑی ہے جبکہ بے نظیر بھٹو کے قتل اور کارگل کے ایشو
کی انکوائری رپورٹ بھی قوم کے سامنے نہیں لائی گئی۔'دریں اثناءمسلم لیگ صوبائی
کونسل کے اجلاس میں سابق وزیراعلی پیر صابر شاہ اور رحمت سلام خٹک کو
بلامقابلہ مسلم لیگ خیبر پختون کے صدر اور جنرل سیکرٹری منتخب کرلیا گیا
ہے۔جبکہ امریکی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز اسلام آباد میں تعینات
امریکی افسر نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی رپورٹ پاکستانی بری فوج کے سربراہ
جنرل اشفاق پرویز کیانی کو پیش کی تھی۔یہ بات امریکی وزارتِ دفاع کے ترجمان
کیپٹن جان کربی نے پریس کانفرنس میں بتائی۔پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ یہ
رپورٹ جنرل کیانی کو اتوار کے روز اس لیے دی گئی تاکہ ان کو اس رپورٹ کے بارے
میں علم ہو جب یہ رپورٹ منظرِ عام پر لائی جائے۔واضح رہے کہ امریکی فوج کی
سینٹرل کمانڈ نے یہ رپورٹ گزشتہ پیر کے روز ریلیز کی تھی۔جان کربی نے کہا 'ہم
چاہتے تھے کہ جنرل کیانی اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ ہوں۔اخبار'واشنگٹن پوسٹ'
کےمطابق دہشت گردی کےخلاف اوباما انتظامیہ کے کارناموں میں سب سے زیادہ نما
یاں القاعدہ کی صفوں کی صفوں کا صفایا کرنا ہے۔اخبار کہتا ہے کہ تین سال کی
مختصر مدّت میں اس نے ڈرون طیاروں کو استعما ل کرنے کے لئے ایک وسیع جال بچھا
لیا ہے جس کی مدد سے مشتبہ دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے اور غنیم پر
چوری چھپے نظر رکھی جاتی ہے۔ِاس مقصد سے، درجنوں خفیہ تنصیبات قائم کی گئی ہیں
جن میں مشرقی امریکی ساحل پر دو مرکز شامل ہیں۔ اس کے جنوب مغربی علاقے میں
ایسے مرکز ہیں جنہیں عملی طور پر ائیر فورس کے کاک پٹ کہا جا سکتا ہے۔ اس کے
علاوہ دو برّ اعظموں کے کم از کم چھ ملکوں میں خفیہ اڈّے قائم ہیں۔'واشنگٹن
پوسٹ' کہتا ہے کہ صدر اوباما سے پہلے کسی صدر نے قومی سلامتی کے مقاصد کی
پیروی میں اتنے وسیع پیمانے پر افراد کو ہلاک کرنے کے لئے خفیہ طریقوں کا
سہارا نہیں لیا۔ڈرون طیاروں کےاستعمال میں اتنی تیزی آئی ہے کہ اِس کے نتیجے
میں سی آئی اے اور فوج کے درمیان حد ِفاصل کا وجود مٹتا جا رہا ہے۔ ان خفیہ
کاروائیوں کو حسب ضرورت زیادہ سے زیاد ہ بروئے کار لایا جارہا ہے، اور
ہتھیاروں اور عملے کو اس طرح یک جا کیاجارہا ہے تاکہ وہائٹ ہاوس ان الگ الگ
قانونی اداروں سے رابطےمیں رہے جنہیں اِس طرح ہلاک کرنے کی اجازت دینے کا
اختیار ہے۔یمن کی مثال دیتے ہوئے اخبار کہتا ہے کہ وہاں سی آئی اے اور فوج کی
سپیشل اوپریشنز کمان نے ایک ہی د ±شمن کو ایک ہی قسم کے طیاروں سے نشانہ
بنایا۔ ان حملوں میں اس سال ہلاک ہونے والوں میں تین امریکی شہری بھی تھے جن
میں سے دو پر القاعدہ کے کارکن ہونے کا شبہ تھا۔صدر اوباما کی پہلی میعاد کا
ابھی ایک سال باقی ہے اور ان کی انتظامیہ ناقابل تردید دعوے کر سکتی ہے۔
اوساما بن لادن کو ٹھکانے لگا دیا گیا ہے، القاعدہ نیٹ ورک اب شکست کے دہانے
پر پہنچ چکا ہے اور اس کے علاقائی اتّحادیوں کے ارکان اب آسمان کے تارے گن رہے
ہیں۔اخبار کہتا ہے کہ جب2009 ءمیں صدر اوباما نے حلف اٹھایا تھا تو اس وقت
ڈرون طیاروں کا استعمال صرف ایک ملک یعنی پاکستان میں ہوتا تھااور جہاں پانچ
سال کے دوران 44 ڈرون حملوں میں لگ بھگ 400 افراد ہلاک کئے گئے تھے۔اس کے بعد
سے ان حملوں کی تعداد اب 240 تک پہنچ گئی اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد محتاط
اندازوں کے مطابق چو گنی ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اس سال ڈرون حملوں میں کمی
آئی ہے جس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ سی آئی اے وقتاً فوقتاً بحران کی صورت میں
انہیں بند کر دیتی ہے۔ پھر پچھلے ماہ ایک غیر ارادی نیٹو فضائی حملے میں 24
پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے یہ حملے بند ہیں ۔ امریکی عہدہ داروں کا
کہنا ہے کہ القاعدہ کےاہم ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کی تعداد کم ہو کر صرف دو رہ
گئی ہے۔ سابق وزیر خارجہ اور تحریکِ انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے
کہا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کے حق میں ہے اور پاکستان اور امریکہ کے
تعلقات میں بہتری کے لیے امریکہ سے مزاکرات کرنا ہوں گے۔انہوں نے کہا ہے کہ
دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم پر مسلط کی گئی تھی اور یہ جنگ ہمیں مجبوراً لڑنا پڑ
رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغرب کی جانب سے تیار کی جانے والی موجودہ حکمت
عملی عمران خان کی سوچ کے قریب ہے۔انہوں نے کہا کہ جب نیٹو فورسز افغانستان
میں داخل ہوئیں تو وہاں سے بڑی تعداد میں جنگجو پاکستان میں داخل ہوگئے جنہوں
نے ہماری حکومت کی رِٹ کو چیلنج کیا جس کی وجہ سے ہمیں کارروائی کرنی
پڑی۔انہوں نے کہا کہ اب عالمی سطح جو حکمتِ عملی بن رہی ہے وہ عمران خان کی
سوچ کے قریب ہے کیونکہ ان کا پہلے دن سے یہی کہنا تھا کہ جنگ اس مسئلے کا حل
نہیں اور وہ سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔امریکہ اور پاکستان کے درمیان
جاری موجودہ کشیدگی کے بارے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو یہ دیکھنا ہوگا کہ
ہمارا مقصدکیا ہے۔'پاکستان کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو تا کہ
پاکستان بھی پرسکون رہ سکے افغانستان میں امن کے لیے مزاکرات کرنا ہوں گے اور
مزاکرات کے لیے امریکہ کو بھی شامل کرنا ہوگا اور امریکہ کو ہماری حساسیت کا
خیال بھی رکھنا ہوگا اس لیے سب سے ضروری ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے لیے
نئے اصول و ضوابط وضع کیے جائیں۔'سیاسی میدان میں ہونے والی ہلچل اور خاص کر
مخدوم جاوید ہاشمی کے تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ
ہمارا کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے صرف ہم نے ایک دوسرے کے خلاف انتخاب لڑا ہے اور
اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔'وہ (جاوید ہاشمی) اور میں ملتان ہی کے دو مختلف
حلقوں سے منتخب ہوچکے ہیں لہٰذا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔'یاد رہے کہ شاہ محمود
قریشی نے انیس سو پچاسی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مخدوم جاوید ہاشمی کےخلاف
ملتان سے انتخابات لڑئے ہیں۔انہوں کے کہا کہ ان کی جماعت انتخابات کے لیے تیار
ہے اور انتخابات جتنی جلدی ہوں اتنا ہی اچھا ہے۔ایک سوال پر کے ان کی جماعت نے
انتخابات کا ابھی تک مطالبہ نہیں کیا ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی تو
پارلیمان میں کوئی نشست نہیں ہے اس لیے انہوں نے نون لیگ سے کہا تھا کہ اگر وہ
انتخابات کروانا چاہتے ہیں تو اسمبلیوں سے استعفٰی دے دیں تاکہ حکومت انتخابات
کے لیے مجبور ہوجائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے موجودہ اسمبلیاں ویسے بھی
اپنی افادیت کھو چکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی کے جلسے کے بعد اب ان کی
پہلی ترجیح اندرونِ سندھ تحریکِ انصاف کو منظم کرنا ہے اور
اس کے لیے سندھ کے دیگر کئی شہروں میں جلسے بھی کریں گے۔پرویز مشرف کی جماعت
آل پاکستان مسلم لیگ سے تحریکِ انصاف کی قربتوں اور مبینہ اتحاد کے بارے میں
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف پاکستان کے شہری ہیں اور ان پرسیاست میں حصہ لینے
پر کوئی قانونی قدغن نہیں ہے مگر ان کی جماعت نے ابھی تک کسی جماعت سے اتحاد
کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا اور اس کا فیصلہ وقت آنے پر ہوگا۔اے پی ایس
http://apsnewsagency.blogspot.com/feeds/posts/default?alt=rss

///////////////////////////////////////////
تاثرات اور تحفظات۔چودھری احسن پر یمی

Posted: 27 Dec 2011 07:48 PM PST
http://feedproxy.google.com/~r/blogspot/PZgq/~3/221a_CIwwUY/blog-post_28.html?utm_source=feedburner&utm_medium=email


مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں معاشی بد انتظامی اور کمزور گورننس کی ذمہ دار
80فیصد سے زائد وفاقی اور باقی کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے، کرپشن اورمعاشی
انتظامی بدحالی سے ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ
کار آنے سے گھبرا رہے ہیں ۔ مرکزی بینک کی حالیہ رپورٹ وائٹ پیپر سے کم نہیں
ہے۔یکساں احتساب کا نظام رائج کیا جائے۔جمہوری اداروں میں استحکام سے معاشی
حالات بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے اس وقت ملک میں صرف 13.4فیصد شرح سے
سرمایہ کاری ہو رہی جو کہ 1974ءکے بعد کم ترین ہے ملک معاشی ابتری کی طرف بڑھ
رہا ہے ،دور دور تک اس سے نکلنے کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔ گزشتہ 64سال سے
اگر تنقید برائے تنقید کی بجائے ،تنقید برائے اصلاح کی جاتی تو ہم ایک قوم بن
جاتے ۔ زمینی حقائق کو ایک طرف رکھتے ہوئے ،حکومتوں نے جو فیصلے ملک پر مسلط
کئے ،آج قوم ان کا بوجھ اپنے کمزور کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ اس وقت ہر شخص
دباومیں ہے۔جبکہ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ملک کی بدترین سیاسی
صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میمو اسکینڈل نہ صرف فوج
کیخلاف سازش ہے بلکہ ملک و قوم کیخلاف سنگین غداری اور قومی سلامتی پر حملہ
ہے۔ سپریم کورٹ آزادانہ تحقیقات کر کے اس اسکینڈل میں ملوث ملزموں کو کیفر
کردار تک پہنچائے۔ پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادیوں کی جانب سے عدلیہ اور فوج
کو دی جانے والی دھمکیوں اور مسلسل محاذ آرائی سے اداروں میں ٹکراو ¿ ہو گا اس
طرح پیپلز پارٹی ایک بار پھر سیاسی شہادت کی کوشش کر رہی ہے حکومت ہر لحاظ سے
ناکام ہو چکی ہے اور اس سے نجات کا وقت آ گیا ہے۔یہ بات جماعت اسلامی کی مرکزی
مجلس شوریٰ کے حالیہ ہونے والے اجلاس میں متفقہ قرار داد میں کہی گئی ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مرکزی مجلس شوریٰ محسوس کرتی ہے کہ وزیراعظم نے
قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران سانحہ ابیٹ آباد پر تبصرہ کرتے ہوئے
کہا کہ ہم سے میمو کے بارے میں پوچھنے والے بتائیں کہ 6سال سے اسامہ بن لادن
کس کے ویزے پر یہاں تھا۔ ان کا یہ بیان بحیثیت وزیراعظم اٹھائے گئے اپنے حلف
کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور اپنے ملک کے اداروں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے
کی کوشش ہے۔ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے اور اب مزید چند
مہینوں میں کیا کرے گی۔ اس لئے ایک غیر جانبدار عبوری انتظامیہ اور ایک با
اختیار الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی الیکشن کا اعلان کیا جائے تاکہ قوم اپنے
مسائل کے حل کے لئے نئی قیادت کا انتخاب کر سکے۔ مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس یہ
بھی واضح کرتا ہے کہ حکومت کی ناکامی کا بہانہ بناکر اگر کسی غیر جمہوری غیر
آئینی اقدام کی کوشش کی گئی تو اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔قرار داد
میں کہا گیا ہے کہ یہ حکومت ہماری تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے۔ اور حکمرانوں
کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس حکومت کی اصل دلچسپی این آر او کے ذریعے
اپنے ماضی کے مالیاتی و سیاسی جرائم سے فراغت حاصل کر کے امریکا کے ایجنڈے کو
آگے بڑھانا ہے یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف کی جاری کردہ داخلی و خارجی پالیسیوں
میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ امریکا کی نام نہاد دہشتگردی کی جنگ میں شمولیت
کو جاری رکھ کر ملک کو سیاسی و معاشی طور پر تباہ کر دیا گیا۔قرار داد میں کہا
گیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے اصل مجرموں اور اس جرم کے معاون کو کیفر
کردار تک پہنچانے میں اس حکومت نے جو انہی کے خون کی بدولت اقتدار میں آئی،
کوئی موثر کارروائی نہیں کی ہے۔ اس دعوے کے باوجود کہ اصل مجرموں کو صدر صاحب
جانتے ہیں ، ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی
رپورٹ پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ ملک میں توانائی کا بحران اپنی انتہا کو پہنچ
گیا ہے۔ عوام بجلی ، گیس اور پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں۔ اس کے
باوجود یکم جنوری سے گیس کی قیمت میں چودہ فیصد اضافہ اور تیل کی قیمتوں میں
بھی مزید اضافہ کر نے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔جبکہ محترمہ بینظیر بھٹو کی
چوتھی برسی کے موقع پر پیپلزپارٹی ضلع جعفر آباد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے
زنجیروں میں جکڑے20 نوجوانوں نے خود سوزی کی کوشش کی جنہیں بچا لیا گیا۔ ادھر
اوچ شریف میں پی پی کے کارکن نے گلے میں رسی ڈل کر خودکشی کرلی۔تفصیلات کے
مطابق محترمہ بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی کے موقع پر ضلع جعفر آباد بلوچستان سے
تعلق رکھنے والے زنجیروں میں جکڑے بیس نوجوانوں نے خود سوزی کی کوشش کی جنہیں
بچا لیا۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نوجوانوں نے پیپلز پارٹی
بلوچستان کے صدر صادق عمرانی اور حکومت بلوچستان پر سنگین الزمات عائد کرتے
ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت اور بلوچستان پیکیج کے تحت ملنے والی دس ہزار
ملازمتوں میں سے پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکنان کو نظر انداز کیا گیا ہے اور
یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن صرف روٹی، کپڑا اور
مکان اور ملازمت کے خواہش مند ہیں لیکن کارکنوں کو نہ تو یہ مراعات دی جارہی
ہیں اور نہ ہی انہیں اہمیت دی جارہی ہے جس کی وجہ سے وہ شدید احساس محرومی کا
شکار ہو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر نے کا فیصلہ کر چکے ہیں حکومت اب ہماری
لاشیں اٹھائے اور پھر انسانی حقوق کی تنظیموں کے سوالات کا جواب دینے کیلئے
تیار رہے۔ علاوہ ازیں خیر پور سے تعلق رکھنے والے محکمہ تعلیم کے چھوٹے
ملازمین نے وزیر اعلیٰ سندھ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ کیخلاف مظاہرہ کرتے ہوئے
الزام عائد کیا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے بحالی کے حکم کے باوجود انہیں ملازمت
نہیں دی جارہی ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا
ہے کہ جس میثاق جمہوریت پر شہید بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کئے اس پر
پیپلز پارٹی نے 90 فیصد عمل کیا، ہماری لیڈر شپ نے مفاہمت کی سیاست کوفروغ
دیتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا ، توقع کرتے ہیں کہ میاں نوازشریف بھی ملک کی
بہتری ، جمہوریت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے آگے بڑھیں گے ، جو فیصلے
پارلیمنٹ میں ہونے ہیں اگر ایسے فیصلوں کو عدالت میں لے کر جایا جائے گا تو
پھر اس سے میثاق جمہوریت کی توہین ہوگی، شہید بینظیر قتل میں عالمی قوتیں ملوث
تھیں اور مقامی لوگ بھی آلہ کار بنے ۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ پیپلز
پارٹی ملک میں ووٹ کے ذریعے تبدیلی چاہتی ہے کیونکہ جو تبدیلی بلٹ یا کسی اور
طریقے سے آتی ہے وہ دیرپا اور پائیدار نہیں ہوتی، اسی لئے ہم ووٹ کے ذریعے
تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی جب بھی اقتدار میں
آئی ہے عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئی ہے ہم نے پھر یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ
دیا ہے اور (ن) لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں سے یہ کہتے ہیں کہ وہ آنے والے
انتخابات کا انتظار کریں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ
بینظیر بھٹو کے قتل کا کیس عدالت میں ہے اور اس پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت
ہے ان کے قتل میں بین الاقوامی قوتیں ملوث تھیں اور مقامی لوگ بھی اس کا آلہ
کار بنے، ابھی ہم اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ عدالت میں کیس اور
تفتیش کا عمل چل رہا ہے ، نوڈیرو میں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس نہ ہونا
اعلیٰ قیادت کا فیصلہ ہے، ممکن ہے کہ پارٹی قیادت نے گڑھی خدا بخش میں شہید
بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی کی تقریبات اور اس کے جلسے کو فوکس کیا ہو۔جبکہ
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ شہید بینظیر بھٹو کے قاتلوں کے بارے
میں حکومت کی تحقیقات مکمل ہو چکی اور قتل میں ملوث چار ملزمان گرفتار ہو چکے
ہیں جبکہ 8 ملزمان روپوش ہیں، قتل کی سازش جس کمرے میں ہوئی ا?س کمرے کے فوٹو،
قاتل پشاور سے راولپنڈی کے درمیان جس جگہ قیام پذیر رہے اور انہوں نے بینظیر
بھٹو کو قتل کرنے کے بعد کہاں جا کر کس کو اطلاع دی یہ سب باتیں حکومت کو
معلوم ہو چکی ہیں، کوشش کر رہے کہ عدالت ہمیں اجازت دے کہ ہم اس تحقیقاتی
رپورٹ اور ملزمان کے بارے میں قوم کو بتا سکیں۔ گڑی خدا بخش لاڑکانہ میں
بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی کی تقریبات میں شرکت کے بعد سکھر ائیرپورٹ سے اسلام
آباد روانگی سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے رحمن ملک نے کہاکہ شہید بینظیر
بھٹو اور ان کے خاندان پر تنقید کر نیوالوں کو آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنا
چاہیے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف پاکستان آئیں انہیں
کسی نے نہیں روکا ہے ہماری حکومت ان کیخلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کر رہی
ہے بلکہ انہیں عدالت نے اشتہاری ملزم قرار دیا ہے اب وہ پاکستان آئیں گے تو
انہیں عدالت کا سامنا تو کرنا پڑیگا ۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان قائد اعظم کے
مزار پر جلسہ تو کرآئے
لیکن قائد اعظم کے مزار پر سلام کرنے نہ جاسکے،ہم نے انہیں جلسہ کرنے سے نہیں
روکا۔جبکہ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ حکومت
بی بی کے ماننے والو ں کی ہے تو اسے غریب کیلئے کچھ کردکھانا ہوگا،وہ منگل کو
بے نظیر بھٹو کی چوتھی برسی کے موقع پر جلسہ سے صدر زرداری کی خصوصی دعوت پر
ان کے خطاب کے بعد تقریر کر رہے تھے۔ اپنے جذباتی خطاب میں انہوں نے بے نظیر
بھٹو شہید کو ایک عظیم بہادر اور جرات مند قائد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ
اپنی جان کو درپیش خطرات کے باوجود مشرف کے ایمرجنسی لگانے کے بعد اسے للکارتے
ہوئے وطن واپس آئیں ' بے نظیر سے بندوق والے بھی ڈرتے تھے' بے نظیر پاکستان کی
ہر جھونپڑی اور ہر گھر میں رہتی تھیں'الیکشن قریب ہیں صدر اور وزیراعظم کو
سوچنا ہو گا کہ ہم نے عوام کیلئے کیا کیا ہے ' آج غریب عوام مہنگائی اور غربت
کے ہاتھوں بے حال ہیں اگر یہ حکومت بی بی کے ماننے والوں کی ہے تو پھر ہمیں
اپنے غریب عوام کیلئے کچھ کرنا ہو گا۔ اعتزا ز احسن نے کہا کہ ہم جہاں کھڑے
ہیں یہ جگہ شہیدوں کا قبرستان کہلاتی ہے۔انہوں نے صدر اور وزیراعظم کو مخاطب
کرتے ہوئے کہا کہ آج جب الیکشن قریب آ رہے ہیں تو ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے
عوام کو کس حد تک خوشحال کیا ہے۔ لوگ بلوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، ان میں
بچوں کی فیسیں اور گھروں کے کرائے دینے کی سکت نہیں اگر ہم بی بی کے ماننے
والے ہیں تو ہمیں ان کیلئے کچھ کرنا ہو گا۔ انہوں نے کسی کا نام لئے بغیر کہا
کہ آج ہماری آواز پوری دنیا سمیت ان ایوانوں میں گونجے گی جن ایوانوں میں بے
نظیر کے خلاف تینوں موجود ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین و صدر
مملکت آصف علی زرداری نے کہاہے کہ تمام قوتیں جمہوریت کے تابع ہیں، جیو اور
جینے دو کی پالیسی پر زندہ رہنا چاہتے ہیں، ہر قسم کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے
جمہوری انداز اپنائیں گے، ٹیلر میڈ جمہوریتیں نہیں چلتیں، دھرتی کا بیٹا ہوں،
وفاق ٹوٹنے نہیں دوں گا، بی بی کا قرض آصفہ چکائے گی، آصفہ وہاں سے علم اٹھائے
گی جہاں سے گرا تھا، وزیراعظم ہمارا ہے اور ہم اس کی عزت کرتے ہیں اسی بات
مانیں گے، وزیراعظم ڈگمگائیں گے نہیں،کونڈو لیزا رائس کی کتاب نے بی بی کا کیس
دوبارہ کھول دیا ہے، میں نے یو این او رپورٹ اس لئے مسترد کی کہ کونڈا لیزا
رائس اس کے سامنے حاضر نہیں ہوئیں، انتخابات کرسیوں کیلئے نہیں جمہوریت کیلئے
لڑیں گے، جس نے پارٹی سے جانا ہے جائے،جس سونامی کی بات لوگ کر رہے ہیں وہ
سونامی نہیں ذونامی ہے، ہم نے پختونوں اور بلوچوں کا درد محسوس کیا ہے اور
انہیں شناخت دی، تخت لاہور سے اپنا حق مانگنے والے جنوبی پنجاب کے عوام کو بھی
ان کا حق دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی
چوتھی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے
کیا۔ صد رآصف علی زرداری نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے
کہا کہ 30 سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کا کیس اٹھا رہا ہوں، لوگ آپ سے پوچھتے
ہیں کہ بی بی کیس کا کیا بنا؟ میں بھی پوچھتا ہوں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری
صاحب ! بینظیر بھٹو کے کیس کا کیا بنا؟ صدر زرداری نے کہا کہ کاش عدالتیں میرے
ماتحت ہوتیں، باقی دوسرے کیسز آپ کو نظر آرہے ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم
نے پہلے بھی ایسے اکھاڑے دیکھے ہیں۔ وقت آیا تو ہم آپ کے سامنے بھی آئیں
گے۔صدر نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ دنیا میں اقتصادی بحران ہے، پارٹی کو نیا
معاشی نظام پیش کیا ہے۔ دوسرے ممالک کے ساتھ بااثر طریقے سے کام کریں گے۔ چین،
روس اور وسطی ایشیا کے ساتھ نئے بلاک بنانے ہیں۔انہوں نے امریکا کا نام لئے
بغیر کہا کہ کوئی ہمیں ڈکٹیٹ نہ کرے، ملکی مفاد میں، جس سے ہوا، تجارت کریں
گے۔انہوں نے کونڈولیزارائس کی کتاب نے بی بی کاکیس دوبارہ کھول دیاہے۔امریکہ
کی سابق وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس سے پوچھوں گا کہ وہ بینظیر قتل کیس میں
شہادت کیوں نہیں دیتیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کے دوست ہیں کسی کیساتھ دشمنی
نہیں چاہتے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی کی جنگ میں نہیں جائیں گے۔صدر نے کہا
کہ میرے دل میں بہت کچھ بھرا ہوا ہے جو آج میں دنیا کے مسلمانوں' سیاستدانوں
اور پاکستان کے سیاستدانوں کو کہنا چاہتا ہوں۔ ہم ہیڈ لائن نہیں تاریخ بنانا
چاہتے ہیں، میں اس دھرتی کا بیٹا ہوں اور محسوس کرسکتا ہوں کہ یہاں کتنے درد
ہیں، ان میں سے ایک درد بلوچستان کا بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں بلوچستان کی
بات کرتا ہوں تو سردار نوروز خان کی شکل میرے سامنے آجاتی ہے۔ آج کے سیاستدان
جو یہ بات کرتے ہیں کہ ہم معافی مانگتے ہیں، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ کس
بات کی معافی مانگتے ہیں۔ ہر قوم کی الگ صفت ہے' بلوچ 'بلوچ میں فرق ہے، جسے
ہم سمجھتے ہیں اسلئے میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ ہم سے سیکھئے، بیٹھنے بٹھانے
اور خیالات ملانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بلوچوں کی
خدمت کی اور کرتے رہیں گے۔ جو بلوچ لڑ رہے ہیں' جیلوں سے اسلئے نہیں چھوڑا تھا
کہ آکر لڑنا ہے' لڑنا ہے تو ہم سے سیکھئے' ہم نے بارہ بارہ سال جیل کاٹی' بھٹو
سے لے کر اب تک چار شہادتیں دیں اس کے بعد گڑھی خدا بخش میں کھڑے ہوکر بات
کرنے کے قابل ہوئے' قربانیاں نہ دیتے تو آج عوام ہمیں قبول نہ کرتے۔ انہوں نے
کہا کہ ہم نے پختونوں کو ایک شناخت دی ، وعدہ کرتا ہوں کہ ان سے یہ شناخت آنے
والی نسلوں تک کوئی واپس نہیں لے سکتا۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ جنوبی
پنجاب سے آواز آرہی ہے کہ وہ تخت لاہور سے اپنا حق مانگ رہے ہیں اور کہا جارہا
ہے کہ ہمیں تخت لاہور سے آزادی دلائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت اور
پارلیمنٹ کے تابع ہیں' وزیراعظم ہمارا ہے' ہم اس کی عزت کرتے ہیں اور اس کی
بات سنتے ہیں کیونکہ جب وزیراعظم مجھ سے بات کرتا ہے تو سمجھتے ہیں کہ
پارلیمنٹ بات کررہی ہے اور ہم پارلیمنٹ کی بات سنتے ہیں ہم سنتے ہیں یہی
جمہوریت ہے ،اسی جمہوریت کیلئے ہم نے عوام کی قربانی مانگی ہے ۔ انہوں نے کہا
کہ ہم نے اپنے منشور پر عملدرآمد کیا ہے' ہم نے اس جنگ کو لڑنا ہے جس نے ہماری
بی بی ہم سے چھینی' انہوں نے کہ جمہوریت عوام کو ریلیف دے سکتی ہے اور دیتی
ہے' ہمیں مشکلات درپیش ہونے اور دنیا میں بحرانوں کے باوجود پاکستان میں روٹی'
چاول ہے اور لوگوں کو دینے کیلئے پیسہ ہے۔ یہاں دو سیلاب آئے ایک سیلاب کو
اقوام متحدہ نے سونامی قرار دیا' یہ وہ سونامی نہیں جس کی لوگ بات کررہے ہیں
وہ تو زونامی ہے۔ سیلاب آنے کے باوجود ہمارے گودام غلے سے بھرے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں آج پیپلزپارٹی کے رہنماو ¿ں اور وزراءکو ہدایت کرتا ہوں
کہ انہیں ایسے ٹی وی پروگراموں میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں جہاں سب
سیاستدانوں کو بلاکر ایک دوسرے کی ٹوپی اچھالی جاتی ہے اور بے عزتی کی جاتی
ہے' جب کسی موضوع پر بلائیں گے تو جائیں گے' اس پروگرام میں جائیں گے جس کے
کمپیئر کے کان میں کوئی آلہ نہیں لگا ہوگا اور وہ موضوع پر بات کرے گا۔ انہوں
نے کہا کہ آج حکومت کو چار سال ہوچکے ہیں۔ ہمیں جن حالات میں اقتدار ملا تھا
وہ سب کے سامنے تھا۔ آج ہم پر انگلیاں اٹھانے والوں اور ٹائیگرز سے پوچھنا
چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس ایک شخص بیٹھا ہے جو وزیر زراعت رہا ہے وہ بھی تو کچھ
نہ کرسکا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی کے جانے کا کوئی افسوس نہیں' ہمارے ساتھ
جو رہے گا ہمارے سر آنکھوں پر اور جو جائے گا وہ بھی ہمارے سر آنکھوں
پر'۔انہوں نے کہا کہ آج لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ بی بی کے کیس کا کیا ہوا؟ میں
بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے پوچھتا ہوں کہ بی بی کے کیس کا کیا بنا'
عدالتیں میرے اختیار میں نہیں' کاش! ایسا ہوتا میں نے تاریخ اور دھرتی کا قرض
ذوالفقار علی بھٹو کا کیس آپ کے پاس بھیجا ہوا ہے مگر وہ کسی کو نظر نہیں آتا
پھر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں' جج صاحب ہم آ پ کے سامنے آئیں گے آپ نے
جوکرناہے کرلینا،اگرسیاست کرنی ہے توہم جیسی کرو، نہیں کرسکتے توکوئی آسان کام
کرو آسان کام کس کوکہتے ہیں یہ الطاف بھائی بہتر بتا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ
سب کو آئین کی حدود میں رہ کر کام کرنا ہے، کسی نے بھی اپنے آپ کو آئین سے
باہر نکالا تو آئین اپنی حفاظت کرنا جانتا ہے ۔کوئی بھی ادارہ خواہ وہ الف، ب
اورج ہو، غیر آئینی کام نہیں کرسکتا ۔ صدر نے کہا کہ ہم نے اٹھارہویں ترمیم
میں بھٹو کا وعدہ پورا کردیا' ہم وفاق کو نہیں توڑیں گے' ہمارا لڑنے کا انداز
آنگ سان سوچی جیسا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک مشکل سے بنایا گیا ہے' آدھا
ٹوٹ چکا ہے اور نہیں توڑنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کونڈولیزا رائس کی نئی
کتاب نے محترمہ کا کیس دوبارہ کھول دیا ہے' میں نے اقوام متحدہ کی ریزولوشن
اسلئے مسترد کی کیونکہ کونڈولیزا رائس اس میں
پیش نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوئی موروثی سیاست نہیں' بھٹو کی
شہادت کے بعد بینظیر قیادت کیلئے مجبور ہوگئی تھیں اور سیاست میں آئیں اور
مقابلہ کرتے کرتے شہید ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں بھونچال آیا ہوا
ہے۔ آج اگر کسی کو کہوں کہ میرا غم دیکھو تو کوئی نہیں سنے گا، اسلئے ہم بارٹر
سسٹم لائیں گے۔ ترکی اور چین نے اس پر دستخط کردئیے باقی ملکوں نے بھی وعدہ
کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو ہمیشہ یہ نعرہ لگایا کرتے تھے کہ
ایک بھٹو یہاں اور ایک بھٹو تم میں ہے اور اس نعرے کی تشریح یہ ہے کہ ذوالفقار
علی بھٹو عوام کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے تھے جب وہ لوگوں کی طرف دیکھتے تھے تو
انہیں اپنا آپ دکھائی دیتا تھا۔ انہوں نے کہاکہ جمہوریت ملک میں آگئی ہے مگر
صفتیں آنے میں ابھی وقت ہے۔ درخت کو بڑا ہونے میں وقت لگتا ہے
ٹیلرمیڈجمہوریتیں نہیں چلتیں ۔ صدر نے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اے
کارکنوکبھی نہ گھبراناآگے بڑھتے رہناجب بھی مشکل وقت آیامیں سب سے آگے ہوں
گااور اپنی چھاتی آگے اورآپ کو پیچھے کروں گا میں نے ہمیشہ بی بی کوبھی کہا کہ
آپ چھوڑیں میں مقابلہ کروں گا' ہم جب بھی مقابلہ کریں گے تو ہمارا انداز
جمہوری ہوگا' ہم کرسیوں کیلئے نہیں لڑتے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت آئینی صدر
اور وزیراعظم ہیں' میرا پروٹوکول ضرورت سے زیادہ ہے مگر آئینی لحاظ سے
وزیراعظم میرا لیڈر ہے' کارکن یوسف رضا گیلانی پر اعتبار کریں جس بی بی نے مجھ
پراعتبارکیا ۔ انہوں نے کہا یہ بھی کہا گیا کہ میں طبی طور پر ٹھیک نہیں
(میڈیکلی آو ¿ٹ) ہوں' پتہ نہیں یہ کس نے کہہ دیا' ہاں جس طرح مسل کھنچ جاتا ہے
ہوسکتا ہے میرا مسل بھی کھنچ گیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ میاں نواز
شریف کی تعریف کرتا ہوں' نواز شریف جب نوابشاہ آئے تو کہا کہ لگتا نہیں یہ صدر
کا ضلع ہے' مجھے ان کی اس بات پر خوشی ہوئی' انہوں نے صحیح کہا کہ یہ صدر کا
نہیں جیالوں اور بی بی کا ضلع ہے۔ انہوں نے کہاکہ سارے اختیارات پارلیمنٹ کو
دینے پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دبئی میں ایک سابق وزیراعظم نے
آصفہ سے کہا کہ آپ نے جس کو وزیر خارجہ بنایا اس کو میں نے تربیت دی تھی تو
آصفہ نے کہا کہ آپ نے اسے تربیت دی ہم نے اس سے تاریخ بنائی ہے۔ انہوں نے کہا
کہ سیاسی دوستوں کو بتانا چاہتاہوں بی بی کا قرضہ آصفہ اتارے گی، آصفہ نے علم
وہاں سے اٹھانا ہے، جہاں پر گرا تھا۔ہم نے پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا
ہے بیشک بہت سے چیلنجز درپیش ہیں' میں سمجھتا ہوں کہ کل آنے والا چیلنج بڑا
ہوگا جس سے نمٹنے کیلئے ہم نے آج سے تیاری پکڑنی ہے۔ ہم نے نئے ٹریڈ بلاکس
بنانے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ دنیامیں اقتصادی بحران ہے،پارٹی نے نیا معاشی
نظام پیش کیا ہے،دوسرے ممالک کے ساتھ بااثرطریقے سے کام کرینگے ۔ ہم نے دنیا
سے کہا ہے کہ یہ ہمارا حق ہے کہ جس کیساتھ چاہیں تجارت کریں کیونکہ آپ ہمیں
سنبھال نہیں سکتے، ہمیں اپنے بچوں کی فکر کرنی ہے، آپ کے نخرے نہیں اٹھانے۔
جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ بینظیر جیسی قد آور لیڈر کی
شہادت کو چار سال گزرگئے، حکومت بتائے ان کے قتل کا کیا ہوا؟۔بھٹو کی پھانسی
پر ریفرنس لایا گیا اور لیاقت علی خان کے قتل کا معمہ بھی اب تک حل نہیں
ہوسکا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9رکنی لارجر
بنچ نے میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت کی، سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف
جسٹس نے کہا کہ اگر میمو ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے تو پھر اس کی تحقیقات کی ضرورت
کیوں پیش آئی، ایوان صدر میں اس کیلئے اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی اور حسین
حقانی سے استعفیٰ کیوں لیا گیا، عدالت نے اس کیس میں صدر سے جواب طلب کیا تھا
شاید انہوں نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ عدالت نے میمو کیس کی سماعت آج بدھ
تک ملتوی کرتے ہوئے سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کو ہدایت کی
ہے کہ وہ آج اپنے دلائل مکمل کریں جبکہ اٹارنی جنرل کا سماعت کے دوران کہنا
تھا کہ عدالت کو اس معاملے پر پارلیمانی سفارشات کا انتظار کرنا چاہئے اور
عدالت کو اس کیس کی سماعت سے گریز کرنا چاہئے۔ادھر عاصمہ جہانگیر نے میمو کیس
کے ناقابل سماعت ہونے پر منگل کو دلائل دیتے ہوئے دوران سماعت عدالت کے سامنے
ایک سوال رکھا کہ خفیہ ادارے کو حکومت کیخلاف تحقیقات کا اختیار کس نے دیا۔
دائر درخواستوں کی سماعت پر اٹارنی جنرل انوارالحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ
متنازعہ میمو کی ایوان صدر کی جانب سے 29 اکتوبر کو تردید کی گئی تھی جبکہ
وزیراعظم نے 22 نومبر کو اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ عدالت کی جانب سے میمو
کے وجود اور اس کیخلاف دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں پوچھے
گئے سوال پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میمو ایک مفاد عامہ کا
معاملہ ہے لیکن وہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے اور اس سے درخواست گزاروں کے حقوق
متاثر نہیں ہوئے۔ جس پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق نے اپنے
جواب میں کہا ہے کہ یہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے، اگر یہ کاغذ کا ٹکڑا تھا تو ایوان
صدر میں اس کیلئے اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا
کہ بے کار کاغذ کا مطلب ہے کہ اسے پھاڑ کر پھینک دیا جائے یہ تو تحقیقات کے
بعد پتا چلے گا کہ یہ کاغذ کا ٹکڑا ہے یا نہیں جبکہ وزارت خارجہ نے اپنے جواب
میں میمو کی تردید نہیں کی بلکہ اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ جسٹس شاکر اللہ
جان نے کہا کہ آپ اس کو کاغذ کا ٹکڑا کہتے ہیں جبکہ آرمی چیف اس کو ملک کیلئے
خطرہ قرار دے رہے ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اٹارنی جنرل سے استفسار
کیا کہ حسین حقانی سے استعفیٰ کس لیے لیا گیا جبکہ وزیراعظم نے اس کی تحقیقات
کا بھی حکم دیا گیا آپ اس میمو کے وجود سے انکار کرتے ہیں؟۔ اس موقع پر اٹارنی
جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت کو اس معاملے پر پارلیمانی سفارشات کا انتظار کرنا
چاہئے اور عدالت کو اس کیس کی سماعت سے گریز کرنا چاہئے۔ جس پر چیف جسٹس نے
کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کی تحقیقات عدالتی کارروائی کو نہیں روک سکتیں اور
فیصلہ عدالت میں ہونا ہے پارلیمانی کمیٹی میں نہیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے
کہا کہ عدالت پر کوئی قدغن نہیں لیکن یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں کیونکہ اس
معاملے میں بنیادی انسانی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر عدالت
کی سماعت پر کوئی قدغن نہیں تو پھر عدالت کو کیوں روکا جارہا ہے۔ جسٹس جواد
ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو تحقیقات کرنے دی جائیں، میمو جعلی ثابت
ہوگیا تو حکومت سرخرو ہوگی۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوئے تو حسین حقانی کی
وکیل عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت نے آئی ایس آئی کی
بات ماننی ہے تو عدالت میں بھی بہت سے باغی ملیں گے، آپ آئی ایس آئی کی
درخواستوں کو سن رہے ہیں میرے موکل کو عدالت نے سنا ہی نہیں اور اس کیخلاف
سنادیا گیا، میں تو کہتی ہوں کے عدالت میں بے نام درخواستیں دائر کی گئی ہیں،
اگر آئی ایس آئی کی رپورٹ کو دیکھا جائے تو ولی خان اور بینظیر بھٹو سمیت اس
عدالت میں موجود بہت سے افراد غدار قرار دیئے جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ
نوازشریف سمیت تمام افراد کی درخواستیں قابل سماعت نہیں، ان کو مسترد کیا
جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایٹمی اثاثوں کا کنٹرول صدر اور وزیراعظم کے پاس ہونا
چاہئے، ایٹمی اثاثوں کی مالک صرف فوج نہیں بلکہ پوری قوم ہے، وزیراعظم کسی کو
ہٹائیں تو اس میں عدالت کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ
آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ ہٹانے کی خبریں شائع ہوئیں اور تبصرے شروع
ہوگئے کہ میمو پر عمل شروع ہوگیا۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ عدالت کو آرمی چیف
کی برطرف سے کیا مسئلہ ہے، عدالت کو اس معاملہ میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے
کیونکہ آرمی چیف کی برطرفی وزیراعظم کا اختیار ہے اور اگر وزیراعظم آرمی چیف
کو برطرف کرتے ہیں تو وہ اپنا ختیار استعمال کرتے ہیں۔جبکہ وزیراعظم یوسف رضا
گیلانی نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو شہید کے قتل کی تحقیقات تقریباً مکمل ہوچکی
ہیں، معاملہ عدالت میں ہونے کے باعث تفصیلات منظر عام پر نہیں لاسکتے، ضرورت
محسوس ہوئی تو وزیر داخلہ سی ای سی کی میٹنگ میں کچھ حصے ظاہر کریں گے، کنگز
پارٹی کنگ کیساتھ ہی دفن ہوجاتی ہے، اچھا ہوا کمزور دل حضرات پہلے ہی چلے گئے'
الیکشن کے موقع پر جاتے تو ہمیں نقصان ہوتا، اداروں کو لڑانے کی تمام سازشیں
ناکام ہوگئیں' تمام اداروں کو آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہوگا،
آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کوئی تصادم نہیں ہوگا' پیپلزپارٹی بڑی جماعت
ہے' سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ وہ منگل کو یہاں گڑھی خدا بخش بھٹو میں
بینظیر بھٹو شہید کے مزار پر حاضری دینے کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کررہے
تھے۔وزیراعظم نے کہا کہ پیپلزپارٹی نظریہ اور فلسفہ کا نام ہے اور اس کی ایک
طویل
جنگ ہے، دوسری جماعتوں کیساتھ جانے والے لوگ موقع پرست ہیں ان کا کوئی فلسفہ
نہیں۔ اس وقت تمام کنگز ایک جماعت میں اکٹھے ہورہے ہیں تاہم کنگز پارٹی کنگ
کیساتھ ہی دفن ہوجاتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھے خوشی ہوئی کہ جو کمزور دل
حضرات ہمارے ساتھ گزارہ نہیں کرسکتے تھے پہلے چلے گئے کیونکہ الیکشن کے موقع
پر چلے جاتے تو ہمیں نقصان ہوتا۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ
اداروں کے مابین ٹکراو ¿ کی سازشیں ہمیشہ ہوتی رہیں پہلے صدر اور وزیراعظم کے
مابین اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکامی سے دوچار ہوئی پھر حکومت اور
عدلیہ کو ٹکرانے کی کوشش کی گئی اور یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ وزیراعظم ججوں کو
ڈی نوٹیفائی کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد فوج اور حکومت کے مابین اختلاف لانے
کیلئے جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی افواہ پھیلائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم جمہوری قوت ہیں اور بینظیر بھٹو کے فلسفہ مفاہمت پر عمل
پیرا ہیں اور اسی کے تحت تمام قوتوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں تاہم میں واضح
کرنا چاہتا ہوں کہ ہر ادارے کو آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔
اگر ادارے آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں گے تو کوئی تصادم نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ تمام اداروں کو آئین کے تابع بنایا جائے اور
پارلیمنٹ کی بالادستی کو اجاگر کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا
کہ پیپلزپارٹی معمولی نہیں ایک بڑی جماعت ہے جو تمام سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ
کرسکتی ہے۔ امریکہ کیساتھ تعلقات کے فیصلے اب پارلیمنٹ کرے گی۔قبل ازیں
وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے چیئرمین سینیٹ ،وزیراعلیٰ سندھ اور وفاقی
وزیرداخلہ کے ہمراہ بے نظیربھٹو شہید کے مزار پر حاضری دی اور پھولوں کی
چادرچڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔ جبکہ ایک دلچسپ اورخفیہ سیاسی پیش رفت میں
پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بیرسٹر
اعتزاز احسن کو یوسف رضا گیلانی کی جگہ ملک کا وزیراعظم بنانے کا امکان ظاہر
کیا جارہا ہے، صدر زرداری انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق سوائے طریقہ کار کی
چند رکاوٹوں کے اعتزاز احسن کو وزیراعظم بنائے جانے کا قطعی فیصلہ کرلیا گیا
ہے۔ صدرزرداری کے بارے میں چاہے کچھ بھی کہا جائے، تاہم وہ دوست و دشمن دونوں
کو حیران کردینے کا خصوصی ہنر رکھتے ہیں، منگل کو گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے
نظیر بھٹو کی چوتھی برسی کے اجتماع سے خطاب میں صدرزرداری نے اعتزاز احسن کی
مدح سرائی کرکے سیاسی مبصرین کو حیران کردیا صدرنے نوڈیرو آنے پر اعتزاز احسن
کا نہ صرف شکریہ ادا کیا بلکہ ایک غیرمعمولی پیش رفت کے تحت اعلان کیا کہ ان
کے بعد اعتزاز احسن خطاب کریں گے، اس طرح وہ اجتماع کے ایک کلیدی مقرر بن گئے،
صدر کے قریبی ذرائع کے مطابق یوسف رضا گیلانی کو ہٹا کر اعتزاز احسن کو لانے
کیلئے سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ
عدلیہ کے معزول ججوں کی بحالی کے لئے تحریک میں اعتزاز احسن نے کلیدی کردارادا
کیا تھا اور انہیں پارٹی قیادت کی جانب سے ایک طرف کردیا گیا تھا، سن 2009ءمیں
ان کی پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی رکنیت بھی معطل کردی گئی تھی ، تاہم
اعتزاز احسن کا اصرار تھا کہ وہ پیپلز پارٹی نہیں چھوڑیں گے ، شاید ان کی
پیپلز پارٹی کے لئے قربانیاں اب رنگ لائی ہیں اور انہیں وزارت عظمیٰ کے لئے
زیر غور لایا جارہا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیر کی شب نو ڈیرو کے
اجتماع سے قبل قمر زمان کائرہ، فوزیہ وہاب، شیری رحمن، راجہ پرویز اور
دیگررہنماو ¿ں نے اعتزاز احسن سے ٹیلیفون پررابطے کئے جبکہ صدر زرداری 6دسمبر
کو دبئی روانگی سے قبل اور آج کل بھی بیرسٹر اعتزاز احسن کو روزانہ گھنٹوں
طویل ٹیلیفون کالز کرتے رہے ہیں، نوڈیرو سے لاہور واپسی کے لئے طیارے میں سوار
ہوتے وقت رابطہ کرنے پراعتزاز احسن نے اپنے وزیراعظم بنائے جانے کی سختی سے
تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لئے پہلے قومی اسمبلی کا رکن بننا یا ہونا پڑتا
ہے اور وہ ایوان زیریں کے رکن نہیں ہیں، انہوں نے کہاکہ یقیناً ضمنی انتخاب
میں کامیابی کے ذریعہ وزیراعظم بنا جاسکتا ہے لیکن اتنی مختصر مدت کے لئے میں
کیوں وزیراعظم بننا چاہوں گا؟ ایک آئینی ماہر نے تصدیق کی کہ پیپلزپارٹی چاہے
تو 30دن میں ضمنی انتخاب کراکر نیا وزیراعظم لاسکتی ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ
گیلانی کو تبدیل کرنے کے ارادے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدرزرداری صرف پیپلزپارٹی
کی حکومت کی بقاء میں دلچسپی رکھتے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاستی شطرنج کے
گرانڈ ماسٹر صدر زرداری، گیلانی کو ہٹاکر اعتزاز احسن کو لانے کا مقصد ان کی
جانب سے ایک اور جوا کھیلنا ہے جس کے تحت صدر سن 2013ءمیں عام انتخابات کے لئے
مہم اعتزاز احسن اور آصفہ بھٹو زرداری کے ہاتھوں محفوظ سمجھتے ہیں۔اے پی ایس
http://apsnewsagency.blogspot.com/feeds/posts/default?alt=rss


--
Rizwan Ahmed Sagar
Bhalwal(Sargodha)
03458650886/03006002886
Email.sagarsadidi@gmail.com
http://sargodhatv.blogspot.com/
http://bhalwalnews.blogspot.com
http://urduartical.blogspot.com <

No comments:

Post a Comment