Monday, December 26, 2011

پاکستان پر قربان

پاکستان پر قربان
تحریر: سید قمر حیات(میرپور)
Emai: sqamarhayat@gmail.com
{ تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما سر شاہ نواز بھٹو کے فرزند اور پاکستان
کے پہلے منتخب وزیر اعظم و بانی چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی مسٹر
ذوالفقار علی بھٹو شہید کی صاحبزادی 21جون953ء کو کراچی میں پیدا ہوئی
مسٹر بھٹو نے اپنی بیٹی کا نام بینظیر رکھا دُنیا اسلام اور پاکستان کی
پہلی منتخب ہونے والی خاتون وزیر اعظم پاکستان و چیئر پرسن پاکستان پیپلز
پارٹی محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے 5جولائی 1977ء کو پاکستان کے آمر مطلق
جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں جس طرح جرأت و بہادری اور استقامت
کے ساتھ ضیاء الحق کی سفاکانہ ، جابرانہ اور دہشگردانہ پالیسیوں کا
مقابلہ کیا وہ تاریخ میں ہمیشہ یا د رکھا جائے گا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے
10دسمبر 1976ء کو برطانیہ کے شہر لنڈن کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی اسٹوڈینٹس
یونین کی صدارت کامیابی سے حاصل کر کے اپنی بہترین صلاحیتوں اور ذہانت کا
ثبوت دیتے ہوئے فلسفہ سیاست و معاشیات کی تعلیم امتیازی حیثیت سے پاس
کرتے ہوئے اپنے عظیم والد مسٹر ذولفقار علی بھٹو شہید کے مشن کی تکمیل
کیلئے سیاسی زندگی میں عملی طور پر حصہ لینے کیلئے ہی جدوجہد کا آغاز کر
دیا تھا۔ 4اپریل 1979ء کو پاکستان میں ساڑھے گیارہ سال تک اپنے دورِ
آمریت کوطول دینے والے جنرل ضیاء الحق نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو شہید کو
ایک قتل عمد کے مقدمہ میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین
جو کے مسٹر ذوالفقار علی شہید سے ذاتی عناد و بغض رکھتا تھا کی جانب سے
سنائی جانے والی سزا موت کو اُس وقت کی سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے
سزائے موت برقرار رکھوا کرمسٹر بھٹو شہید کو تختے دار پر لٹکا کر جو سیا
ہ کارنامہ سر انجام دیا وہ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں سیاہ ترین
فیصلہ تصور کیا جاتا ہے صد افسوس کے بین الاقوامی سامراجی قوتوں اور اُس
کے ایجنٹوں کی سازشوں کی تکمیل کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے بھٹو ازم اور
پاکستان پیپلز پارٹی کو توڑنے کیلئے انتہائی سفاکانہ ، مجرمانہ، جابرانہ
،چنگیزیانہ، حربے استعمال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک
چیئرپرسن ، مادرِ جمہوریت بیگم بھٹو و محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو پابندہ
سلاسل کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی عہدیداروں و
کارکنان پر جو ظلم و بربریت روا رکھا اور پاکستان میں سیاست کو شجرے
ممنوعہ قرار دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے جیالوں پر کوڑوں اور تشدد کرنے کے
ساتھ ساتھ بہت سے نوجوانوں کو جئے بھٹو کا نعرہ مارنے کی پاداش میں
پھانسیوں کے پھندوں پرلٹکانے کے ساتھ ساتھ تحریر و تقریر پر کڑی پابندیاں
لگانے اور پریس پر کڑی سنسرشپ لاگو کر دی تھی لیکن محترمہ بینظیر بھٹو
شہید نے آمر ضیا ء الحق کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کو
متحد و منظم رکھتے ہوئے پارٹی کارکنان و عہدیداروں کی ڈہارس بنائے رکھی
۔محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی مسلسل نظر بندی کے باعث بیمار ہونے کی صورت
میں بین الاقوامی این جی اوز اور حکومتوں کے دبائو کے تحت جنرل ضیا ء
الحق نے محترمہ بینظیر بھٹو کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی اس جلاوطنی کے
دور میں بھی محترمہ نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان میں عوام پر ضیاء
الحق کی آمریت کو بھر پور طریقے سے بے نقاب کرتے ہوئے مسٹر بھٹو شہید کے
مشن کو جاری و ساری رکھا بلآخراپریل 1986ء کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید جب
لاہور ایئرپورٹ پر اتریں تو اُن کے استقبال کیلئے آنے والے لاکھوں لوگوں
نے جس طرح محترمہ کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور مینار پاکستان لاہور
کے میدان میں لاکھوں افراد نے جلسے عام میں جس طرح شامل ہوئے وہ تاریخ
پاکستان میں ہمیشہ یاد گار رہے گا۔اُس جلسہ عام میں محترمہ بینظیر بھٹو
شہید نے اپنے خطاب کے آخری الفاظ میں ''ضیاء الحق جاوے ہی جاوی'' کا
پرجوش نعرہ لگا کر ضیاء الحق کی آمریت کو لرزا دیا تھا 18دسمبر 1987ء کو
نواب شاہ کے ایک سیاسی خاندان کے سربراہ محترم حاکم علی زرداری کے
صاحبزادے محترم آصف علی زرداری کے ساتھ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شادی
کراچی میں سر انجام قرار پائی۔ جنرل ضیاء الحق کے دنیا سے کوچ کرجانے کے
بعد محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے ضیاء الحق کے حواریوں کی جانب سے لگائے
گئے الزامات و غیر شائستہ طرز عمل کی پروا نہ کرتے ہوئے 1990ء کے
انتخابات میں پاکستان کے عوام کی اکثریت کی حمایت کے باعث انتخابات میں
کامیابی حاصل کر کے حکومت قائم کی لیکن غلام اسحاق خان نے ضیاء کی
باقیات کی سازشوں کے باعث محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت کے خلاف
کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے حکومت کو برطرف کر دیااور پاکستان کی عدالت
عظمیٰ نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت کو متعصبانہ و غیر منصفانہ
رویہ اپناتے ہوئے بحال نہ کیا جس پر محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے کہا کے
سندھ کے وزیر اعظم پاکستان کی حکومت کو بحال نہ کر کے عدلیہ نے تعصب کیا
ہے ۔993ء میں ایک بار پھر پاکستان کے عوام کی اکثریت نے مسٹر ذوالفقار
علی بھٹو شہید کی پاکستانی عوام ملک و ملت و عالم اسلام کیلئے کی جانے
والی خدمات کے صلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو عام انتخابات نے کامیاب کر
کے ضیاء الحق کی باقیات کو شکست سے دو چار کرتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو
شہید کو پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہونے کا اعزاز بخشا۔بدقسمتی سے
پاکستان پیپلز پارٹی کی آستین کے سانپ فاروق لغاری نے احسان فراموشی کرتے
ہوئے بھٹو شہید کے مخالفین کی سازشوں کے باعث ایک بار پھر محترمہ بینظیر
بھٹو شہید کی حکومت پر کرپشن کے جھوٹے الزامات لگاتے ہوئے محترمہ بینظیر
بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کر دیا ۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے مخالفین کی
جانب سے لگائے جانے والے الزامات اور اپنی ہی حکومت میں اُن کے بھائی میر
مرتضیٰ بھٹو کو قتل کروائے جانے والے سازشی عناصر کی سازشوں سے بچنے کی
خاطر اور اپنے بچوں بختاور زرداری بھٹو، بلاول زرداری بھٹو، آصفہ زرداری
بھٹو کی زندگیوں کو خطرات سے بچانے کیلئے محترمہ بینظیر بھٹو شہید 1998ء
میں دبئی منتقل ہو گئیں اور تقریباً 9سال تک پاکستان سے جلا وطن کی جانے
والی پاکستانی عوام کی مقبول ترین سیاسی رہنما محترمہ بینظیر بھٹو شہید
بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے فورم پر پاکستان میں آمریت و غیر
جمہوری قوتوں کی عوام کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف صدائے
احتجاج بلند کرتی رہیں اور جنرل پرویز مشرف مسلسل محترمہ بینظیر بھٹو
شہید کو خودساختہ جلا وطن قرار دیتا رہا اور پاکستان پیپلز پارٹی کو
توڑنے اور پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کی سازشوں میں مسلسل مصروف عمل رہا
بلا ٓخر پاکستان میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے
لوگوں کو توڑ کر اپنی ہمنوا حکومت قائم کرنے میں تو کامیاب رہا لیکن
پاکستان میں دہشت گردی ، فرقہ واریت، خودکش حملے اور دہشت گردانہ
کارروایوں کے باعث پاکستان میں سیاسی ابتری و نازک صورتحال کو مد نظر
رکھتے ہوئے جنرل پرویز مشرف 20جولائی 2007ء کو دبئی میں جا کر محترمہ
بینظیر بھٹو شہید کو پاکستان واپسی آنے اور سیاسی عمل میں حصہ لیتے ہوئے
2007ء میں ہونے والے انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے محترمہ
بینظیر بھٹو شہید کو ایک معاہدے کے تحت پاکستان آنے کو کہا ۔محترمہ
بینظیر بھٹو شہید نے پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کیلئے 18اکتوبر
2007کو واپس پاکستان آنے کا اعلان کر دیا محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے
ازلی مخالفین اور دشمن محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی آمد پر سخت پریشان تھے
اور دبے لفظوں میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو قاتل کیے جانے کی سازش کے
اشارے بھی دے رہے تھے لیکن عظیم باپ کی عظیم بیٹی نے پاکستان میں اپنی
آمد کو یقینی بنانے کیلئے تمام دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے
18اکتوبر 2007کو کراچی ایئر پورٹ پر خصوصی پرواز کے ذریعے تشریف لائیں۔
اور پاکستان بھر سے کشمیر سے خیبرتک لوگوں نے لاکھوں کی تعدادمیں محترمہ
بینظیر بھٹو شہید کا استقبال کیا محترمہ کی کراچی میں آمد کے چند گھنٹو ں
بعد اُن کے جلوس پر دہشگردوں نے دھماکے کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے 200سے
زاہدنوجوانوں کی جانیں تو لے لی لیکن محترمہ بینظیر بھٹو شہید معجزانہ
طور پر محفوظ رہیں اور دوسرے دن کراچی میں ہی محترمہ نے پریس کانفرنس کر
تے ہوئے کہا پاکستان کے عوام سے مجھے کوئی جدا نہیں کر سکتا میں اپنی جان
پاکستان کے عوام پر فدا تو کر سکتی ہوں مگر پاکستان اور پاکستان کے عوام
کو چھوڑ کر میں نہیں جا سکتی ۔بلآخر 2007ء کے انتخابی جلسوں کے آخری جلسہ
عام 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں اپنی زندگی کے آخری جلسہ
عام سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو نے ان الفاظ کو ادا کیا کے
''پاکستان کی دھرتی مجھے پکار رہی ہے ''اور اختتام جلسہ پر گھات لگائے
دہشت گردوں اور سازشیوں کی سازش کے تحت پاکستان کی ممتاز سیاست دان و
پاکستانی عوام کی مقبول ترین لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو دھماکے اور
فائرنگ کرتے ہوئے موت کی نیند سلا دیا گیا۔اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید
پاکستان کے مظلوم عوام اور اپنے جانثار ساتھیوں اور پارٹی کے عہدیداروں و
کارکنان کو روتا ہوا چھوڑ کر دارفانی سے کوچ کر گئیں۔آج محترمہ بینظیر
بھٹو شہید کی چوتھی برسی کے موقع پر پاکستان کے محب وطن ہر طبقہ فکر کے
افراد کو جہاں جہاں بھی وہ جس جس مقام پر فائز ہیں محترمہ بینظیر بھٹو
شہید کی پاکستان کی خاطر اپنی جان نچھاور کرنے کے فلسفے کی تقلید کرتے
ہوئے پاکستان کی مضبوطی و استحکام اور ملک و ملت کے ساتھ وفاداری کو قائم
رکھتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات و تصابات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اجتماعی
مفادات کی نگہداشت کرتے ہوئے پاکستان کو بین الاقوامی سامراجی قوتوں کی
جانب سے درپیش خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک و ملت میں امن و بھائی
چارے کو تقویت دیتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہےی۔
تحریر: سید قمر حیات
مکان نمبر 55سیکٹر A-1سادات کالونی میرپور آزاد کشمیر
فون نمبر: 0346-5031441
شناختی کارڈ نمبر: 81302-1700693-9
Emai: sqamarhayat@gmail.com
سید قمر حیات(میرپور)
sqamarhayat@gmail.com

--
Rizwan Ahmed Sagar
Bhalwal(Sargodha)
03458650886/03006002886
Email.sagarsadidi@gmail.com
http://sargodhatv.blogspot.com/
http://bhalwalnews.blogspot.com
http://urduartical.blogspot.com

No comments:

Post a Comment