Friday, December 16, 2011

Abdul Hameed ex MNA sargodha

''عہد ساز شخصیت اور لیگی قیادت کی بے حسی''
( عوامی خدمت اور اجتماعی بھلائی کے لئے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالنے
والے تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔جبکہ اس حقیقت سے انحراف
کرنے والوں کو زمانہ ان سے پہلے ہی فراموش کردیتا ہی،بلاشبہ ایسے افراد
کا دم غنیمت ہی،کہ جنہوں نے منفی روایات کیخلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے
دکھی انسانیت کے زخموں پر اخلاص کا مرہم رکھااورمحروم طبقات کی حق تلفی
کے ازالہ کیلئے نتائج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مردانہ وارجنگ کی۔وڈیرہ شاہی
کی دہلیزپر سایہ فگن سیاست کو عوامی دہلیز پر لانے والے چوہدری عبدالحمید
ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیت ہیںکہ جنہوںنے علاقائی تاریخ بدل ڈالی اور
کسی جماعت یا قیادت سے وفاشعاری کی وہ مثال قائم کی جو آنے والوں کیلئے
مشعل راہ ہی،اسی طرح علاقہ و عوام کی ترقی و خوشحالی کیساتھ ساتھ دیرینہ
پسماندگی ومسائل سے نجات دلانے کیلئے انہوںنے ایسے ایسے اقدامات فروغ
دئیے کہ جن کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔دہائیوں سے زائد عرصہ
سرگودھا کی سیاست پر سایہ فگن یہ سورج 2دسمبر011ء کو غروب ہوگیا۔مگر ان
کی زندگی کی طرح بعد از وفات کے مناظر بھی ان کی عظمت کو سلام پیش کرتے
نظر آتے ہیں کہ ان کی تدفین کے موقع پر لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر
پہلے کبھی نہ دیکھا گیا اوران کی وفات پر ہر آنکھ اشکبار رہی جبکہ ان کے
سیاسی مخالفین بھی غم سے چور نظر آئی۔ہمارے دوست چوہدری عبدالحمید نے
اپنا سیاسی سفر 1979ء میں کونسلر میونسپل کارپوریشن سرگودھا سے شروع کیا۔
پھرپہلی مرتبہ میئر 1984ء میں بنے آپ شروع ہی سے سچے اور پکے مسلم لیگی
تھی۔انہوںنے 1988میں دوسری مرتبہ میئربنی۔اوراسی سال ہونے والے جنرل
الیکشن میں ایم پی اے منتخب ہوئی۔انہوںنے میاں نوازشریف کے ساتھ اپنی
وابستگی اورمحبت ہمیشہ رکھی ۔دوسری مرتبہ990میں اور تیسری مرتبہ993میںایم
پی اے منتخب ہوئی۔پھر 1997کے جنرل الیکشن میں ایم این اے منتخب ہوکر
تحریک نجات کے کارواں میں اپنی جماعت اور میاں نوازشریف کا ہمیشہ ساتھ
دیا۔ان کے بیٹے حامد حمید998میں میئر میونسپل کارپوریشن سرگودھا بنے
انہوں نے اپنی سفید پوشی اور غریب پروری کیوجہ سے اپنی ہر کامیابی کو
یقینی بنایا۔مگر جب آمریت کا دورشروع ہوا تو وہ NABسے نہ گھبرائی۔جون
2000ء میں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔اس کے خلاف 27ریفرنس تیار کئے گئے جن
میں سے 5ریفرنس ٹرائل NABکی عدالتوں میں ہوئی۔ریفرنس میں عدالتوں نے
باعزت بری کیاجبکہ ایک ریفرنس ابھی تک زیر التواء ہی۔انہیںجب اگست000میں
گرفتار کیا گیا تو اس وقت ان کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی مگر نیب کے کرنل نے
زبردستی ان کو ہسپتال سے ڈسچارج کروایا۔بعد میں سخت گرمی اور حبس کے موسم
میں ان کو بغیر پنکھے کے رکھا گیا۔سرجری کی جگہ سے ان کا کئی روزتک خون
رستا رہا۔اورمیڈیکل سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان کو دوران حراست
ہیپاٹائٹس سی کے ساتھ ساتھ شوگر ،بلڈ پریشر،ہارٹ اور جگر کے امراض کی
موجودگی میں 4سال تک جیل کی کال کوٹھری میں رکھا گیا۔اس ریاستی ظلم و ستم
کے بعد ان کا کاروبار پیچھے سے مکمل طور پر تباہ ہوگیالیکن انہوں نے میاں
نوازشریف کاساتھ نہ چھوڑااورمیاں صاحبان کی جلاوطنی کے دوران ان کے
دوبیٹوں کو حکومتی پریشر اور بوگس FIRکیوجہ سے ملک بدر ہونا پڑااوردوران
اسیری ان کی والدہ محترمہ کا انتقال کرگئیںمگر پارٹی قیادت کی بے رخی اس
قدر تھی کہ کسی نے فون تک نہ کیاجبکہ دوسری طرف سے ہرروزنئی آفرزآئیں جن
میں ایم این اے کی مخصوص نشست کے علاوہ سرگودھا کی تحصیل ناظمی ،سٹی کی
صدارت اور بیٹے کیلئے نوکری کی بھی پیشکشیں ہوئیںمگر تمام تر کوششیں
ناکام ہوگئیںجس پر پارٹی قیادت نے ان کے بیٹے حامد حمید کو ایم این اے کا
ٹکٹ دیا،اس الیکشن میں وہ 4ہزارووٹوں سے ہارگیااس آخری الیکشن میں ہارنے
کے دکھ اور پارٹی قیادت کی بے رخی کی وجہ سے ان کا سیاست سے دل چاٹ
ہوگیا۔پارٹی قیادت نے ان کو عزت دینے کی بجائے ان کے بیٹے کومسلم لیگ ن
کی صدارت سے ہٹا کرسیکرٹری جنرل بنادیاگیا وہ ابھی اس صدمے سے باہر نہ
نکلے تھے کہ ان کو ہارٹ،شوگر،بلڈپریشر،لیورجیسی بیماریوں نے آدبوچا۔انہیں
غموں کو لیکر آخر کار وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئی۔ آج ان کی وفات
کودوہفتے ہونے کو ہیںمگرکسی بھی صوبائی یا قومی قیادت نے انکی آخری
رسومات میں شرکت نہیں کی جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ پارٹی زندوں کی ہے
مردوں کی نہیں۔اسی طرح میاں برادران کے اس رویے نے خصوصاََ سرگودھا کے
شاہینوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیاہے کہ ان سے توقعات رکھنا یونہی
ہی۔اب تو چوہدری عبدالحمید کی وفات سے سرگودھا کی سیاست کا ایک روشن باب
ختم ہوگیااس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا جنازہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے اور
اسی طرح ختم قل کے موقع پر عوام کی کثیر تعدادکے علاوہ اس موقع پر ان کے
دوستوں کے ساتھ ساتھ مخالفین بھی اشک بار نظر آئی۔یوںچوہدری عبدالحمیدنے
اسیری سے رہائی کے بعد دین سے اور قریب ہوگئے ،علاقہ میں خوبصورت مسجد
تعمیر کرورہے تھے جس کی برکت کے طفیل اگر لوگوں کے دلوں میں رنجشیں تھیں
تو وہ ازخود دم توڑ گئیں ۔قارئیں محترم !یہ کون نہیں جانتا کہ موت برحق
ہے ۔۔۔۔قرآن کریم میںیہ ارشادہے کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔جب
موت کا وقت قریب آپہنچتا ہے تو یہ نہ کسی بڑے کو بخشتی ہے اور نہ ہی کسی
چھوٹے کا لحاظ کرتی ہی۔یہ ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ کررکھ دیتی ہی۔بہاروں
کو خزائوں میں بدل دیتی ہی۔موت اللہ تعالی نے ایسی عجیب چیز بنائی ہے کہ
اس نے بڑے بڑے برگزیدہ بندوں،حتی کے اللہ تعالی کے عظیم المرتب ،محبوب
ترین پیغمبروں تک کو معاف نہیں کیا۔جب اس کے آنے کا وقت آتا ہے تو یہ آکر
ہی رہتی ہی۔کوئی بڑے سے بڑا ڈاکٹر بھی اس کو روک نہیں سکتااورنہ ہی ٹال
سکتاہی۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ''جب روح نرخرے تک پہنچ جاتی ہی،تم اسے
اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو مگر ہم تمہاری نسبت اس شخص کے بہت زیادہ قریب
ہوتے ہیں،لیکن تم ہمیں دیکھ نہیں سکتی''۔بلاشبہ موت سے کسی کو بھی مضر کی
گنجائش نہیں مگر مسلم لیگ ''ن'' اور ان کی قیادت کیلئے تمام تر ترغیبات
اور مراعات کی پیشکش ٹھکراتے ہوئے اپنا آپ وار دینے والے چوہدری
عبدالحمید کو لیگی قیادت کا اس طرح فراموش کردینا پارٹی کارکنوں کے ساتھ
ساتھ عوام کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیاہے کہ جو پارٹی قربانیوں
کو اس طرح آنکھیں بند ہونے پر آنکھیں پھیر کر بھول جاتی ہے اس سے کسی بھی
طرح بہتری کی امید رکھنا خودفریبی سے کم نہیں۔

No comments:

Post a Comment