Tuesday, April 10, 2012

صدر مملکت آصف علی زرداری کا دورہ بھارت


دورہ بھا رت 
ڈاکٹر موسیٰ رضا )
صدر مملکت آصف علی زرداری کا دورہ بھارت خالصتاً نجی دورہ تھا جو مذہبی مقاصد کیلئے کیا گیا  اس دورے کیلئے صدر مملکت نے ایک سال قبل خواہش ظاہر کی تھی تاہم ملکی مصروفیات اور بین الاقوامی  ذمہ داریوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوتی رہی 8 اپریل کی تاریخ دونوں ملکوں کے وزارت خارجہ کے حکام کے ساتھ مشاورت کے بعد طے کی گئی صدر کے دورہ بھارت کا اصل مقصد اجمیر شریف میں خواجہ محی الدین چشتی کے مزار پر حاضری اور دعا تھا بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے صدر آصف علی زرداری کے دورہ بھارت کے دوران انہیں ظہرانے کی دعوت دی آصف علی زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر مملکت ہیں ان کا تعلق ایسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہے جو خطے میں امن واستحکام اور ترقی کیلئے پاک بھارت بنیادی مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی خواہاں ہے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد مسئلہ کشمیر پر رکھی گئی تھی پارٹی کے شہید چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اعلان کیا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے بھٹو ایسے  قوم پرست رہنما قوموں اور ملکی کی تاریخ میں چیدہ ہوتے ہیں اور فلق برسوں پھرتا ہے تب خاک کے پردے سے ایسے رہنما پیدا ہوتے ہیں ان کے جنون اور وطن سے محبت پاکستان کے دنیا کی پہلی مسلمان ایٹمی ریاست بننے کی صورت میں ظاہر ہوئی اس جرم کی سزا انہیں اپنی زندگی کی قیمت دے کر چکانی پڑی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی دونوں حکومتوں کے دوران بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی پاک بھارت ایٹمی تنصیبات کی فہرستوں کی معلومات کے تبادلے کا معاہدہ بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں ہوا ہر سال یکم جنوری کو دونوں ملک اپنی ایٹمی تنصیبات کے متعلق معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں سارک کا تصور بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کا برین چائلڈ تھا انہوں نے جنوبی ایشیاء کے ممالک کو ایک مشترکہ تجارتی بلاک بنانے کا خواب دیکھا اور اس خواب کی تعبیر کیلئے بے شمار اقدامات کئے آج سارک تنظیم بہت تیزی کے ساتھ دنیا کا ایک بہت بڑا تجارتی بلاک بننے کی طرف بڑھ رہی ہے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نوازشریف نے بھی جمہوری حکومتوں کے تصورات کے عین مطابق تھا ۔بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوششیں کیں لیکن انہیں کارگل کا سامنا کرنا پڑا اور پھر ملک بدری بھی ان کا مقدر ٹھہری کارگل جیسا ایک ایڈونچر محترمہ بے نظیر بھٹو کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا لیکن انہوں نے وزیراعظم پاکستان کے طور پر اس ایڈونچر کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیا تھا نتیجتاً انہیں سیکیورٹی رسک قرار دے دیا گیا پاکستان اور بھارت خطے کے دو بڑے ممالک ہیں دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں دونوں ملکوں کے درمیان تین بڑی جنگیں اور دو چھوٹی جنگیں ہوچکی ہیں نفرت کی تاریخ کو تبدیل کرنے کی حقیقی کوششیں دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت شروع سے کرتی آئی ہے لیکن دونوں ملکوں کی ایک مخصوص اشرافیہ جنوبی ایشیاء کو ہمیشہ ہی نفرت کی اسیر رکھنے کی خواہاں رہتی ہے بعض عالمی طاقتیں بھی پاک بھارت نفرت کے خاتمے کو اپنے عالمی مقاصد کے حصول کیلئے خطرہ سمجھتی ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضاء کو قائم رکھنے کی خواہاں ہیں ۔
صدر آصف علی زرداری کے دورہ بھارت کا اعلان ہوتے ہی اس دورے کو ناکام بنانے کی دیکھی اور ان دیکھی کوششیں سامنے آناشروع ہوگئی تھیں کوئی بھی سیاسی مبصر یہ بات بہت آرام سے کہہ سکتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید کو دنیا کا مطلوب ترین فرد قرار دینا اور ممبئی دہشت گردی کے حوالے سے ان کے متعلق اطلاع دینے پر ایک کروڑ ڈالر کا انعام مقرر کرنا حقیقتاً صدر آصف علی زرداری کے دورہ بھارت کو ناکام بنانے کی ایک کوشش تھی یہ مضحکہ خیز اقدام خود امریکہ کیلئے عالمی سطح پر شرمندگی کا باعث بن گیا تھا حافظ سعید کہیں چھپے ہوئے نہیں ہیں بلکہ وہ کھلے عام پاکستان میں گھومتے پھرتے ہیں جلسے جلوسوں سے خطاب کرتے ہیں امریکی حکومت کی طرف سے عجلت میں کئے گئے اس اقدام پر ہونے والے  ردعمل کی صداقت امریکی حکومت کے اس جواز پر اور بھی واضح ہوگئی کہ حافظ سعید پر انعام ان کیلئے ہے جو انہیں سزا دلانے کیلئے معلومات کی فراہمی پر دیا جائے گایعنی عذرگناہ بدتر گناہ ازگناہ والا معاملہ ہے کے عدالتوں میں ابھی معاملہ پیش ہی نہیں ہوا اور معاملہ پیش کرنے کیلئے معلومات کی فراہمی پر انعام کا اعلان بھی کردیا گیا ۔مقامی اور عالمی کھلاڑیوں کی طرف سے اس جیسے اقدامات پہلے بھی ہوتے آئے ہیں اب بھی ہورہے ہیں اور مستقبل میں بھی ہونگے لیکن حالات کا جبر آج اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ایسی کوششیں ناکام ہوجائیں گی خطے کے عوام آزادی  خودمختاری  ترقی اور خوشحالی کے خواہاں ہیں جنوبی ایشیاء میں امن واستحکام ترقی اور خوشحالی کے خواب اس وقت پورے ہونگے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان غلط فہمیاں ختم ہوجائیں گی پرامن مذاکرات کے ذریعے بنیادی مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل حل ہوجائیں گے صدر آصف علی زرداری کا دورہ بھارت ایک نئے دور کا آغاز ہے منتخب جمہوری حکومت ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ چار سال کی مدت پوری کرچکی ہے صدر مملکت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے مسلسل خطاب کرنے والے پاکستانی تاریخ کے پہلے صدر بن چکے ہیں آئندہ سال الیکشن کا سال ہے انتخابات کے نتیجے میں جو بھی منتخب حکومت تشکیل پائے گی وہ بھی اپنی آئینی مدت پوری کرے گی جس طرح مسلم لیگ ن نے پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کو عدم استحکام سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کیا مستقبل میں بھی یہ جذبہ برقرار رہے گا جو بھی حکومت آئے گی اسے بھی عدم استحکام کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گاخطے کی سیاسی قیادت اپنے مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور بہت جلد یورپین یونین کی طرح جنوبی ایشیاء بھی ایک اقتصادی یونٹ بن کر عالمگیریت کا مقابلہ کرنے کی اہلیت حاصل کرلے گا۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment