یمی
مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن عروج پر
ہے،غربت نے عوام کو مار ڈالا ہے،بجلی نہیں، گیس نہ ہونے سے چولہے ٹھنڈے پڑ
گئے،آج پی آئی اے اور ریلوے بند ہیں،غیر ملکی طاقتیں پاکستان کا مذاق اڑاتی
ہیں، آج ہماری حکومت ہوتی تو گیس بند نہ ہوتی، بجلی کا مسئلہ حل ہوچکا
ہوتا۔گزشتہ ہفتہ کوگوجرانوالہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے نوازشریف کا
کہنا تھا ملک کو بنے چونسٹھ سال ہوگئے لیکن آج بھی پاکستان اسی طرح محرومیوں
کا شکار ہے، آج دو وقت کی روٹی نہیں ، پینے کا صاف پانی نہیں،ہم حکومت کو
سمجھاتے رہے، کہا صحیح لائن پر آو،پاکستانی بھکاری نہیں خود مختار قوم
ہے۔انہوں نے کہا کہ حکمران عوام کی غربت سے کھیلتے رہے، اپنی جیبیں بھرتے رہے،
بجلی گیس کے ریٹ بڑھے تو چین سے نہیں بیٹھوں گا، جس قوم نے اربوں ڈالر
ٹھکرادیئے وہ کبھی بھیک نہیں مانگ سکتی،پاکستان میں کرپشن عروج پر ہے۔انہوں نے
کہا کہ جو ایبٹ آباد میں ہوا وہ قوم کے لئے ناقابل برداشت ہے، ہم پاکستان کی
موجودہ صورتحال کو برداشت نہیں کرینگے۔جبکہ قائد حزب اختلاف ورکن قومی اسمبلی
پی ایم ایل نون کے مرکزی رہنماءچودھری نثارعلی خان نے گزشتہ ہفتہ کو پی یم ایل
نون کے زیر اہتمام ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے اس سے
قبل فیصل آباد کے جلسہ میں اثاثہ جات کے حوالے سے کہا تھا کہ ہمارا مقابلہ
میڈیا کے ذریعے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے ذریعے کریں لیکن کوئی جواب نہیں
آیا۔اس موقع پر چودھری نثارعلی خان نے عمران خان کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا
کہ عمران خان کراچی میں کہتا ہے کہ میں میچ فکسنگ نہیں کرتا اس حوالے سے انہوں
نے کہا کہ کراچی میں عمران خان نے ایم کیو ایم کے خلاف دو لفظ تک نہیں بولے یہ
میچ فکسنگ نہیں تو کیا ہے۔انہوں نے عمران خان بارے مزید کہا کہ عمران خان ملک
سے باہر جاتا ہے تو کہتا ہے کہ میں لبرل ہوں ملک کے اندر آتا ہے تو کہتا ہے کہ
میں قدامت پسند ہوں۔عمران خان خود مختاری کی بات کرتا ہے لیکن کندھوں پر مشرف
کے حواریوں کو بٹھایا ہوا ہے۔ایک طرف امریکہ کے خلاف بات کرتا ہے لیکن دوسری
طرف امریکی سفیر سے جھک جھک کر ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان سٹیڈیم نہیں
بھر سکتے وہ ہمارا مقابلہ کیا کریں گے۔انقلاب کا نعرہ لگانے والے دوسروں کے
کندھوں پر نہیں چڑھتے انہوں نے عوام کو خبردار کیا کہ وہ مشرف کے بہروپیوں سے
دھوکہ مت کھائیں انہوں نے کہا کہ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ موٹر وے،گوادر
پورٹ،بڑے شہروں میں تعمیر ائیر پورٹ نواز شریف دور میں مکمل کئے گئے جبکہ ملک
میں بدترین چونگیوں کے نظام اور سندھ میں ڈاکو راج کا خاتمہ بھی نواز شریف دور
میں ہوا۔ چودھری نثارعلی خان نے کہا کہ نواز شریف اور ہم سب کا کردار عوام کے
سامنے ہے۔ہم پاکستان کے عوام کی تاریخ بدلیں گے۔ وطن عزیز کو درپیش چیلنجز جن
میں دہشت گردی کے علاوہ بیرونی خطرات کی جس صورتحال کا سامنا ہے وہ اندرونی بد
نظمی، بد عنوانی، اور من مانے فیصلوں کے ساتھ مل کر ہر روز سنگین تر ہوتی چلی
جا رہی ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی سے وابستگی کے دعووں کے باوجود اس کے فیصلوں
کو پس پشت ڈالنے کی مثالیں قائم کی جا رہی ہیں۔ عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد
میں لیت و لعل کے ذریعے آئین اور قانون کی حکمرانی کے تصور کو مجروح کیا جا
رہا ہے۔ پٹرول، گیس اور بجلی کے بحران کو ایسے مقام پر پہنچادیا گیا ہے کہ
صنعت کار مایوس ہو کر دوسرے ملکوں کا رخ کررہے ہیں، کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے،
بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور مہنگائی غریب عوام کے لئے ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔
مسائل کا پہاڑ ہر روز بلند تر ہوتا جا رہا ہے اور حکمرانوں کے طرز عمل سے
بالکل انداہ نہیں ہوتا کہ انہیں عوام کے مسائل و مشکلات کا احساس ہے۔ملک و قوم
کو درپیش مسائل کی مناسبت سے گزشتہ دنوں قائد حزب اختلاف و رکن قومی اسمبلی
چودھری نثار علی خان مرکزی رہنماءپی ایم ایل نون کے ساتھ ایسوسی ایٹڈ پریس
سروس،اے پی ایس نیوز ایجنسی نے پارلیمنٹ میں ان کے چیمبر میں ایک نشست کا
اہتمام کیا۔اس موقع پر ملکی معاشی عدم استحکام اور عوام کو آئے روزدرپیش
مشکلات کے حوالہ سے مختلف سوالات زیر بحث آئے۔اس موقع پر جو تفصیلی گفتگو ہوئی
وہ قارئین قارئین کی نذر ہیں۔ قائد حزب اختلاف و رکن قومی اسمبلی چودھری نثار
علی خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ موجودہ حکومت کے پچھلے پونے چار برسوں
میں گورننس کے فقدان کے باعث معیشت مسلسل ہچکولے کھاتی رہی ہے جبکہ قانون کی
عملداری عملاً ختم ہونے کے باوجود ہر قسم کے جرائم میں اضافہ ہوا ہے جس کے
باعث تاجروں سمیت عوامی حلقوں کی طرف سے یوٹیلٹی بل اور ٹیکس نہ دینے کی باتیں
تک سامنے آچکی ہیں۔ نظم حکومت کی خرابی کے باعث کبھی مڈٹرم الیکشن کی تجاویز
سامنے آتی ہیں اور کبھی ایوان کے اندر سے تبدیلی کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ان میں
سے کوئی بھی بات جمہوری روایات اور طریقوں کے منافی نہیں۔ منتخب حکومت کا مدت
پوری کرنا یقیناً احسن بات ہے کیونکہ اس طرح حکمرانوں کو اپنے افکار و نظریات
کے مطابق کام کرنے اور متعین روڈ میپ کے ذریعے ملکی ترقی، خوشحالی کے لئے کام
کرنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن جب عوام کی مشکلات میں اضافے کا سلسلہ جاری ہو اور
اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہ آرہی ہو تو ایسی تجاویز کا برا نہیں منایا
جانا چاہئے جن کا مقصد حالات میں بہتری لانا ہو۔ قائد حزب اختلاف و رکن قومی
اسمبلی چودھری نثار علی خان نے مزید کہا کہ میاں نواز شریف کی طرف سے جلد
الیکشن کرانے کے مشورے کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وسط مدتی الیکشن
یا قبل از وقت انتخابات کا انعقاد کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ جمہوری روایات
کا حصہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک اس وقت جس نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اس
میں سیاستدانوں کے درمیان افہام و تفہیم کی ضرورت حد درجہ بڑھ چکی ہے۔ غیر
سیاسی قوتوں کو مداخلت کا موقع نہ دینے کے اعلانات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم
ہونے کے باوجود اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ وطن عزیز میں جب
بھی سیاستداں باہمی افہام و تفہیم میں ناکام ہوئے ہیں تو فیصلہ غیر سیاسی
قوتوں نے کیا ہے۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ سیاست داں خود ہی مل بیٹھ کر ملک و قوم
کے بہتر مفاد میں جلد فیصلے کریں اور اتفاق رائے سے انتخابی شیڈول بنائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دنوںسپریم کورٹ کے دیئے گئے یہ ریمارکس سیاسی
قوتوں کے لئے چشم کشا ہونے چاہئیں کہ الیکشن کے عمل میں شفافیت نہ ہو تو نظام
بھی پٹری سے اتر سکتا ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جمہوری ممالک انتخابی عمل
کی شفافیت کو اپنے نظام کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھتے ہوئے ایسے تمام ممکنہ
طریقے اختیار کرتے ہیں جن کے ذریعے انتخابات کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ
انعقاد کو یقینی بنایا جا سکے۔ جمہوری معاشرے اس معاملے میں معمولی کوتاہی بھی
برداشت کرنے کے روادار نہیں۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حقیقت یہ ہے
کہ شفاف انتخابات ہی جمہوریت کو یقینی بناتے، اس کا اعتبار قائم کرتے اور
حکمرانوں میں یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ ان کے دوبارہ انتخاب کا انحصار جعلی
ووٹوں اور نامناسب انتخابی ہتھکنڈوں کی بجائے عوام کے بے لاگ اعتماد پر ہے۔ اس
احساس کی غیر موجودگی اختیارات کے غلط استعمال، کرپشن اور من مانے فیصلوں کا
ذریعہ بن کر عوام کو مجبور کرتی ہے کہ وہ حکمرانوں کی واپسی کے لئے دن گن گن
کر تکلیف کا وقت گزاریں۔ قائد حزب اختلاف و رکن قومی اسمبلی چودھری نثار علی
خان نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف جب جلد انتخابات
کی ضرورت کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی دلیل بھی یہی ہوتی ہے کہ اقتدار کی مدت
پوری کرنے کے چکر میں حالات زیادہ خراب ہو جائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک
میں جاری سیاسی سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کئی پارٹیاں
انتخابی عمل شروع کر چکی ہیں۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور نادرا کو 23
فروری 2012ءتک انتخابی فہرستیں ہر صورت میں مکمل کرنے کا جو حکم دیا ہے، اس کی
روشنی میں بھی عام انتخابات کے انتظامات کی تکمیل کے لئے اہم بات یہ ہے کہ ان
کا انعقاد شفاف ہو اور ان کے نتیجے میں اقتدار کی منتقلی پر امن طور پر اور
خوش اسلوبی سے عمل میں آ جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر
ایک جامع حکمت عملی مرتب کریں۔ قائد حزب اختلاف و رکن قومی اسمبلی چودھری نثار
علی خان نے مزید کہا کہ اسی طرح شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے ایک غیر
جانبدار الیکشن کمیشن کی موجودگی ضروری ہے۔ اسی طرح 18 ویں
آئینی ترمیم کے تحت انتخابی فہرستوں میں ووٹروں کی تصویروں کی شمولیت یقینی
بنانے سمیت کئی معاملات ایسے ہیں جن پر سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر ایک مشترکہ
حکمت عملی وضع کرنی چاہئے تاکہ باہمی اختلافات اور افراتفری کے باعث انتخابی
عمل سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے امکانات ختم ہو سکیں۔انہوں نے مزید
کہا کہ اگر موجودہ حکومت نے آئین سے انحراف کیا تو نظام کمزور ہوگااورتیسری
قوت کوفائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے حکومتی دعوی کہ کابینہ کے 80فیصد فیصلوں
پرعملدرآمد کردیا ہے۔اس کے جواب میں کہا کہ زمین پر اس دعوے کے ثبوت کم ہی نظر
آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ کسی ایک حلقے یا طبقے کی حد تک یہ بات
کسی حد تک درست ہو مگر ملک گیر سطح پر مسائل و مشکلات کے خاتمہ کے حوالے سے
گلی کوچوں میں عام آدمی سے پوچھا جائے تو اس کا جواب اثبات میں نہیں ہوگا بلکہ
بعض لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت نے انتخابات سے قبل عوام سے جو وعدے کئے
تھے ان میں سے ایک فیصد پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ کیونکہ عملی طور پر لوگوں
کو مایوسی کے سوا زمین پر کچھ نظر نہیں آتا۔حکومت اس حوالے سے جو دعوے کررہی
ہے وہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب
آدمی سے دووقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔ آٹے دال گوشت سبزی سمیت تمام بنیادی
اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ
وزیراعظم سے اس بارے میں پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی صرف پاکستان
میں نہیں پوری دنیا میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کو معلوم ہونا
چاہیے کہ دوسرے ملکوں میں عوام کی قوت خرید پاکستان کے مقابلے میں کتنی بہتر
ہے۔ ملک بھر کے عوام کے گھروں میں چولہے ٹھنڈے ہو نے پر ایک سوال کے جواب میں
انہوں نے کہا کہ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ شہریوں کی برداشت سے باہر ہوتی
جارہی ہے اور مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکل
آئے ہیں۔ ملک کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں گیس ضرورت کے مطابق ملتی ہو۔قدرتی
وسائل کے وفاقی وزیر کی توجہ اس جانب دلائی جائے تو وہ بلاتکلف جواب دیتے ہیں
کہ ملک میں گیس ہے ہی نہیں تو ہم کہاں سے دیں حالانکہ گیس کی سپلائی یقینی
بنانا حکومت ہی کا کام ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر آنے والے وقت کے لئے پیشگی
منصوبہ بندی کرکے گیس کے نئے ذخائر تلاش کئے جاتے اور انہیں بروئے کار لایا
جاتا تو اس بحران سے بچا جا سکتا تھا۔پھر تھر میں ملنے والے کوئلے سے بھی گیس
بنانے کی رفتارتیز کی جا سکتی تھی جس سے اس کی قلت پر کسی حد تک قابو پا لیا
جاتا۔ ایران اور وسطی ایشیا کے ممالک کب سے پاکستان کو گیس فراہم کرنے کے لئے
تیاربیٹھے ہیں مگر ہم تیار نہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ایران گیس کی پائپ لائن
پاکستان کی سرحد تک پہنچا چکا ہے لیکن پاکستان کی جانب سے اس سستی گیس کی
خریداری کے لئے باہمی اتفاق رائے کے باوجود فائلیں درازوں میں بندپڑی
ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آج توانائی کا بحران ہوتا نہ منافع بخش قومی ادارے
تباہی سے دوچار ہوتے۔ سرکاری محکموں میں کرپشن ایک ناسور کی طرح سرایت کرچکی
ہے اور عام آدمی چھوٹا موٹا کام بھی رشوت یا سفارش کے بغیر نہیں کراسکتا ۔بے
روزگاری بڑھ رہی ہے،میرٹ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں،سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے،
کسادبازاری نے ملک کے معاشی مستقبل کے بارے میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کردی
ہے۔غربت کے مارے لوگ خودکشیاں کررہے ہیں،بدامنی نے لوگوں کی زندگی اجیرن
کررکھی ہے،دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکا ۔ان ابتر حالات میں بھی حکومت
اور اعلیٰ مناصب پر فائز لوگ عوام کی مشکلات دور کرنے سے زیادہ اپنے اقتدار
اور نوکریوں کے تحفظ میں لگے ہوئے ہیں۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ
مخصوص حالات میں دنیا کے اکثر ملکوں میں مقررہ آئینی مدت سے قبل بھی انتخابات
ہوتے رہتے ہیں۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کے نتیجے میں وقت سے
پہلے الیکشن ہوجائیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں۔ حکومت اور انتظامیہ کو معروضی
حالات پر نظررکھ کر ملک میں بے یقینی اور کشیدگی کی فضا کو پروان چڑھنے سے
روکنا چاہئے۔ اپنی تمام تر توجہ ملکی مسائل کے حل پر مبذول کرنی چاہئے اور
عوام میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ بہتر بنانے کے لئے موثر عملی اقدامات کرنے
چاہئیں۔ ملک اور قوم کی بھلائی اسی میں ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا
کہ ملکی معیشت کو اس وقت کئی اندرونی و بیرونی بحرانوں کا سامنا ہے لیکن اگر
بغور دیکھا جائے تو اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ بھی ہے جس میں ایک
دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں ملک کے اقتصادی و معاشی معاملات بری طرح
نظر انداز ہورہے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریلوے، قومی
ایئر لائن، بجلی پیدا کرنے والے اداروں اور اسٹیل مل جیسے بڑے بڑے ادارے مکمل
طور پر بیٹھ چکے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی طرح بحال رکھنے کیلئے ہر سال اربوں
روپے خرچ ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت ملک میں نئی سرمایہ کاری بالکل نہیں ہورہی اور
اس کی بڑی وجہ بھی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور بے یقینی ہے۔ اس وقت ہمیں ملکی
ضروریات کے مطابق بجلی پیدا کرنے اور توانائی کے وسائل حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے ہاں حکومت کا زیادہ وقت اور
توانائیاں اپنے اقتدار کو بچانے اور اپنی مدت پوری کرنے پر صرف ہورہی ہیں اور
ملکی معیشت بری طرح نظر انداز ہورہی ہے جس کے نتیجے میں عوام کے مسائل میں
تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ حکومتی سطح پر اس طرح کی غیر سنجیدہ منصوبہ بندی کی
وجہ سے اس وقت فیصل آباد سمیت پنجاب کے اکثر صنعتی شہر بند پڑے ہیں اور وہاں
مسلسل ہڑتالیں اور احتجاج ہورہا ہے۔ صنعت کار سڑکوں پر آگئے ہیں۔
گھروں تک میں گیس کی فراہمی مشکل ہورہی ہے اور صنعتوں کو ہفتے میں پانچ پانچ
دن گیس کی فراہمی معطل کی جارہی ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی سی این جی
اسٹیشن بند ہونے لگے ہیں۔ بجلی پیدا کرنے کیلئے بھی گیس کی عدم فراہمی رکاوٹ
ہے اور اس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ مزید بڑھ رہی ہے۔ منصوبہ بندی نہ ہونے کے
باعث تعلیم اور صحت کے شعبے اورزیادہ نظر انداز ہورہے ہیں۔ان حالات کا تقاضا
ہے کہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے فوری اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کی
جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ اوگرا نے نئے سال کے آغاز سے سی این جی کے نرخوں
میں46فی صد اضافے کی تجویز دے دی ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومت نے قدرتی گیس کے
صارفین پر100/ارب روپے سے زیادہ کے ٹیکس لگانے کی تیاری کرلی ہے۔ ایسی حکومت
عوام کے مسائل سے باخبر ہونے کے باوجود غریب عوام کے دکھ درد کو محسوس کرنے کی
عادی نہیں بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف حکومت میں رہنا اور اپنے عرصہ اقتدار
کو طول دینا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی اس وقت تک جو کچھ بھی کارکردگی
ہے اس سے اور ارباب اقتدار کے بیانات سے بھی اس بات کا صاف تاثر ملتا ہے کہ
حکومت کی اصل توجہ عوام کو اچھی حکمرانی دینے کے بجائے اپنے اقتدار کی مدت میں
اضافہ کرنا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اچھی کارکردگی پیش کرنے سے ابتدا ہی
سے قاصر ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی کارکردگی مزید خراب ہوتی جا رہی
ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گیس کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے
صنعت کار صنعتیں بند کرنے پر مجبور ہورہے ہیں جس سے ملک میں مہنگائی کے علاوہ
بیروزگاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں اور اقدامات سے
پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرنے پر توجہ نظر نہیں آتی۔معیشت کے حوالے سے
یہ تاثر بالکل واضح ہوکر سامنے آرہا ہے کہ حکومت پیداواری شعبے میں کوئی قدم
اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ پنجاب کی حد تک تو اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ
وفاقی حکومت اس حوالے سے عوام کی مشکلات کم کرنے کے لئے اس لئے کچھ نہیں کررہی
کہ شاید اس کا کریڈٹ صوبے کی حکومت کو مل سکتا ہے لیکن اس طرح نااہلی اور
کارکردگی کا اثر دوسرے صوبوں پر بھی پڑ رہا ہے، جہاں حکمران جماعت کی اپنی
حکومت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یوں ایک طرح سے حکومتی نااہلی اور سیاسی
جانبداری سے پورا ملک ہی مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور نتیجہ یہ
ہے کہ تعمیر و ترقی کا کوئی کام نہیں ہو رہا۔ عوام حکومت کی ناکارکردگی اور
نااہلی کو پوری شدت کے ساتھ محسوس کررہے ہیں اور انتخابات میں اس کا نتیجہ بھی
سامنے آ سکتا ہے۔ حکمراں اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ "جمہوریت بہترین
انتقام ہے" ۔حکومت کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے، سیاسی مخالفین سے الجھنے کے
بجائے عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینی چاہئے اور سیاسی شہادت وغیرہ کی
کوشش کرنے کے بجائے اپنی کارکردگی کے بل پر انتخابات میں جانا چاہئے۔انہوں نے
ایک سوال کے جواب میں مزید کہا کہ حکمرانوں کا طرز عمل ان کے ان دعووں کی نفی
کرتا ہے کہ وہ بیرونی دباوکو قبول نہیں کریں گے انہیں اس دباو کو مسترد کرتے
ہوئے وسیع تر قومی اور ملکی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فوری اقدامات کرنا
ہوں گے ورنہ توانائی کا بحران قومی معیشت کا دیوالیہ نکال دے گا اور امریکہ
سمیت کوئی ملک ہماری مدد کے لئے آگے نہیں بڑھے گا۔انہوں نے اس حوالے مزید
روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گیس کے بحران نے ایک طرف گھریلو صارفین، اور ملکی
صنعتوں کے لئے مشکلات پیدا کی ہیں تو دوسری طرف حکومت گیس و بجلی کی قیمتوں
میں مسلسل اضافے کے ذریعے عوام سے زندہ رہنے کا حوصلہ چھیننے کی کوشش کر رہی
ہے۔ انہوں نے آخر میں اپنی گفتگو سمیٹتے ہو ئے کہا کہ بے روزگار افراد کی
تعداد میں اضافہ اور غربت و افلاس کا بڑھتا ہوا گراف ملک کے لئے سنگین مسائل
پیدا کرے گا۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور
رہی سہی صنعتیں بھی بندش کا شکار ہوجائیں گی۔ یہ صورتحال حکومت کی ناکامی ،
عوامی مسائل میں اس کی عدم دلچسپی اور ناقص منصوبہ بندی کو ظاہر کرتی ہے جس نے
حکمرانوں پر عوام کے رہے سہے اعتماد کوبھی متزلزل کرکے رکھ دیا ہے۔ اے پی ایس
http://apsnewsagency.blogspot.com/feeds/posts/default?alt=rss
///////////////////////////////////////////
حکومت،آئین اور قانون۔چودھری احسن پر یمی
Posted: 31 Dec 2011 12:23 AM PST
http://feedproxy.google.com/~r/blogspot/PZgq/~3/k8TdUUg9rCE/blog-post_31.html?utm_source=feedburner&utm_medium=email
سابق چیف جسٹس پاکستان سعید الزماں صدیقی نے پاکستان میں انسانی حقوق کے نام
پر کام کرنے والی غیر ملکی تنظیم کی جانب سے پاکستانی ریاستی اداروں خصوصاً
اعلیٰ عدلیہ کی سا لمیت پر حملے پر شدید تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ کسی کو بھی
ریاستی اداروں کی سا لمیت اور حرمت پر حملے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہیومن
رائٹس واچ کی جانب سے میمو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر متنازع بیان پر
ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس (ر) سعیدالزماں صدیقی نے کہا کہ اس تنظیم کے
جاری کردہ پریس ریلیز میں جو جملے استعمال کئے گئے ہیں وہ پاکستان کے اندرونی
معاملات میں براہ راست مداخلت ہے اور کسی بھی تنظیم یا ادارے کو اس سطح پر
تبصرے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے کہا سپریم کورٹ کو ایسے گھناو ¿نے
حملے اور خصوصاً امریکی امداد سے چلنے والے ادارے کے بیان کا فوری نوٹس لینا
چاہئے۔ واضح رہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ عمومی تاثر ہے
کہ عدلیہ سول حکومت کے خلاف امتیاز برت رہی ہے۔ بیان میں عدلیہ اور فوج پر
شدید حملے کئے گئے ہیں۔ د ریں اثناءایچ آر ڈبلیو، (جس نے بیان جاری کیا ہے) کے
پاکستان میں ڈائریکٹر علی دایان حسن نے کہا کہ گزشتہ چند روز کے دوران ان کی
صدر آصف زرداری یا ان کے کسی ساتھی سے ملاقات نہیں ہوئی ہے ان کا کہنا تھا کہ
پریس ریلیز جاری کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے کسی نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا
میری تنظیم نے پاکستان میں انسانی حقوق، جمہوریت اور آئین کے درپیش خطرات کے
پیش نظر یہ بیان جاری کیا ہے۔ غیرجانبدار اور معروضی ہونے کا تاثر رکھنے والی
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ جمعہ کو پاکستان کی اعلیٰ
عدلیہ کیخلاف انتہائی قابل اعتراض اور جانبدارانہ پوزیشن اختیار کی اور میمو
گیٹ کے معاملے میں خود بھی متنازع طور پر کود پڑی۔ ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان
ڈائریکٹر علی دایان حسن نے اپنے بیان میں میمو گیٹ کیس پر عدالتی کمیشن تشکیل
دیئے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہا کہ میمو گیٹ میں تمام فریقین کو یہ سمجھنا
چاہئے کہ ایک قانونی تنازع کو پارلیمانی اور صدارتی اختیارات کو گھٹانے اور
سول حکمرانی کو اکھاڑ پھینکنے کا ذریعہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اس انتہائی متنازع
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام ریاستی اداروں کو اپنے آئینی دائرہ کار
میں رہتے ہوئے قانونی سول حکمرانی کی مدد کیلئے کام کرنا چاہئے۔ بیان میں یہ
بھی کہا گیا ہے کہ عدلیہ کو کسی بھی فریق کی جانب سے امتیازی سلوک کے تاثر کو
ختم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ جبکہ قومی سلامتی اب صرف اور صرف
فوج کی ذمہ داری نہیں رہی اور نہ ہی اس کی دیکھ بھال چند مخصوص افراد کا بلا
شرکت غیر فریضہ ہے۔ قومی سلامتی کو مو ¿ثر طریقہ سے یقینی بنانے کے لیے ضروری
ہے کہ دفاعی حکمت عملی سے متعلق ایک ایسا ڈھانچہ وضع کیا جائے جو ملک کی دفاعی
قوت کے تمام عناصر پر مشتمل ہو۔ان خیالات کا اظہار چیئرمین جوائنٹ چیفس آف
سٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں نے گزشتہ جمعہ کو اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس
یونیورسٹی کی تیرہویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کی تقسیم اسناد کی تقریب کے
شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔جبکہ سپریم کورٹ نے میمو اسکینڈل سے متعلق آئینی
درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکن
عدالتی کمیشن قائم کر دیا ہے۔عدالت عظمٰی نے سنائے گئے اپنے مختصر فیصلے میں
کہا کہ درخواست گزار اپنا یہ موقف ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ میمو سے متعلق
معاملات کی تحقیقات عوامی اہمیت کی حامل ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی
سربراہی میں عدالت کے نو رکنی بنچ نے درخواست گزاروں کی استدعا پر اس مراسلے
کا نقطہ آغاز، اس کی صداقت اور اسے تحریر کرکے قومی سلامتی کے لیے سابق امریکی
مشیر جیمز جونز کے توسط سے ایڈمرل مائیک ملن کو پہنچانے کے مقصد کی تحقیقات کا
حکم بھی جاری کیا۔یہ تحقیقات تین رکنی عدالتی کمیشن کرے گا جس کے سربراہ
بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فیض عیسیٰ ہوں گے جبکہ دیگر اراکین میں
سندھ ہائی کورٹ اور اسلام اباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان شامل ہیں۔کمیشن
کو موجودہ قوانین کے تحت اندرون ملک اور پاکستان سے باہر مراسلے سے متعلق
شواہد اکٹھے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اوروہ تمام فریقین کو اپنا بھرپور موقف
پیش کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ عدالت عظمیٰ نے تین رکنی عدالتی کمیشن کو اپنا
کام چار ہفتوں میں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔عدالت عظمی نے سابق سفیر حسین
حقانی پر پاکستان سے باہر جانے کی پابندی بھی برقرار رکھی ہے۔اس مقدمے میں
حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر تھیں، جنھوں نے عدالت کے فیصلے کے بعد
صحافیوں سے گفتگو میں فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کی۔"میں
سمجھتی ہوں کہ عدلیہ کے لیے آج تاریخ کا ایک سب سے تاریک دن ہے … جس نے قومی
سلامتی کو بنیادی حقوق پر فوقیت دی ہے۔"ان کے بقول عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے
پاکستان میں سیاسی حکومت کے مقابلے میں فوج کی برتری ثابت کی ہے۔ "آج میں
سمجھتی ہوں کہ سویلین اتھارٹی، عسکری اتھارٹی کے نیچے آ گئی ہے۔"سپریم کورٹ نے
اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ میمو کیس میں منصور اعجاز کی طرف سے داخل کردہ
جواب کے ساتھ بہت سی دستاویزات بھی نتھی کی گئیں جن میں سابق سفیر حسین حقانی
کے ساتھ بلیک بیری کے ذریعے ا ±ن کے پیغامات کے تبادلے شامل ہیں اور جو اس امر
کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ دونوں اشخاص 9 سے 12 مئی کے دوران مسلسل رابطے میں
تھے۔فیصلے میں عدالت نے کہا کہ درحقیقت نا صرف اس عرصے میں دونوں کے درمیان 85
بلیک بیری پیغامات، ٹیلی فون رابطے اور ای میل پیغامات کا تبادلہ کیا گیا بلکہ
منصور اعجاز کا دعویٰ ہے کہ 28 اکتوبر اور یکم نومبر کو بھی انھوں نے حسین
حقانی کے ساتھ رابطہ کیا۔"اس بنا پر انصاف کا تقاضا ہے کہ ان رابطوں کی صداقت
جاننے کے لیے اٹارنی جنرل وزارت خارجہ کے توسط سے کینیڈا میں مقیم ریسرچ اِن
موشن نامی کمپنی سے ان پیغامات کی تصدیق حاصل کریں کیونکہ تمام تفصیلات اسی
کمپنی کے پاس ہوتی ہیں۔"حکومت پاکستان نے مئی میں امریکی قیادت کو بھیجے گئے
میمو کو 'کاغذ کا ٹکڑا' قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے آئینی درخواستوں کو
مسترد کرنے کی استدعا کی تھی۔آئینی درخواستوں میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق
پرویز کیانی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کو
بھی فریق بنایا گیا ہے، اور ان فوجی قائدین نے عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے
جوابات میں کہا ہے کہ میمو ایک حقیقت ہے جس کی تحقیقات ہونی چاہیئں۔مبینہ طور
پر صدر آصف علی زرداری کی ایما اور اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین
حقانی کی ہدایت پر لکھے گئے میمو میں پاکستانی فوج کی طرف سے ممکنہ بغاوت کو
ناکام بنانے کے لیے عسکری قیادت کی برطرفی میں امریکہ سے مدد طلب کی گئی
تھی۔میمو اسکینڈل پر وفاق اور ملک کی عسکری قیادت کے متضاد موقف کی وجہ سے
سیاسی حکومت اور فوج کے طاقتور ادارے کے درمیان بظاہر کشیدگی پائی جا رہی
ہے۔جبکہ میمو اسکینڈل کے مرکزی کردار امریکی تاجر منصور اعجاز نے سپریم کورٹ
کی جانب سے میمو اسکینڈل کی تحقیقات کے لئے تین چیف جسٹس پر مشتمل تحقیقاتی
کمیٹی تشکیل دینے کا خیرمقدم کیا ہے اور میڈیا و دیگر لوگوں کو انتباہ کیا ہے
کہ ان کی کردار کشی کی مہم بند کردی جائے جو وہ گزشتہ کچھ عرصے سے کررہے ہیں۔
ایک بیان میں منصور اعجاز کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس بات کا
بھرپور اظہار ہے کہ میں نے جو سچ بولا اور آپ کے ملک کو سینئر لیڈروں کو
پہنچایا وہ حقیقی ہے اورجامع تحقیقات کا متقاضی تھا۔ منصور اعجاز نے بتایا کہ
انہوں نے اپنے و کلاءکو ایک پاکستانی اخبار پر ہتک عزت کا مقدمہ کرنے کی ہدایت
کردی ہے تاہم انہوں نے اخبار کا نام نہیں بتایا۔ انہوں نے اپنے اس وعدے کا
اعادہ کیا کہ وہ کسی بھی اعلیٰ سطح، آزاد اور قابل بھروسہ تحقیقات میں تعاون
کریں گے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی اعلان کردہ تحقیقاتی کمیٹی سے مکمل اور شفاف
تعاون کایقین دلایا منصور اعجاز نے بتایا کہ ان کے وکلاءکی ٹیم نے میری ذات،
میرے کاروبار اور میرے اہل خانہ کے متعلق نازیبا اور زہرآلود زبان استعمال کئے
جانے اور مسلسل ملنے والی دھمکیوں کا نوٹس لیا ہے میں نے اب تک اپنے خلاف اس
نازیبا مہم کو نظرانداز کیا کیونکہ جو سچ، جو حقائق، جو شہادتیں میرے پاس ہیں
وہ پاکستانی پریس کے رویہ سے تبدیل نہیں ہوسکتے۔ حسین حقانی کے قانونی مشیر
اور پاکستان کے بعض سیاسی عناصر ان حقائق کے خلاف بول سکتے ہیں مگر سچ اور
حقائق کو چھپانے کی کوششیں ناکام ہوگئیں میں اب مزید اپنے خلاف حملے برداشت
نہیں کروں گا اور اپنے وکلاءکو ایک ادارے کے خلاف قانو نی کارروائی کرنے کی
پہلے ہی ہدایت کردی ہے اور آئندہ اپنی ذات کے خلاف کسی بھی رائے، تجزیہ اور
نازیبا گفتگو پر کسی بھی شخصیت، نیوز ادارے چاہے وہ ٹی وی چینل ہو یا اخبار یا
ادارتی عملہ کو قانونی نوٹس جاری کیا جائے۔سابق وفاقی وزیر قانون اور پاکستان
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر بابر اعوان نے میمو گیٹ اسکینڈل سے متعلق
آئینی درخواستوں کے قابل سماعت قرار دیئے جانے اور جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کے
بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظرثانی کی
گنجائش موجود ہے۔ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اس پر نظرثانی کی
درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا،میمو ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا اس جیسے سو
خط بھی ہوں تو تب بھی ملک کی سلامتی اور سالمیت کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
پیپلز پارٹی کے نائب صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد لاہور پہنچنے پر میڈیا سے
گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کا خط سے کوئی تعلق نہیں ملک میں
جمہوریت کو مکمل آزادی حاصل نہیں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جا رہا بلکہ وہ
رینگ رہی ہے عوام کے مسائل حل کرنے نہیں دیئے جا رہے نان ایشو اٹھائے جا رہے
ہیں حکومت کے بہت سے عوامی فلاح کے منصوبوں کو مکمل نہیں کرنے دیا جا رہا ہے
عوام کا پرسان حال کوئی نہیں ہے سب جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں درخواست کس کی
فرمائش پر دائر کی گئی۔ جبکہ پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے میمو
اسکینڈل کی تحقیقات کے سلسلے میں سابق سفیر حسین حقانی، خفیہ ایجنسی آئی ایس
آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا اور اس معاملہ کے مرکزی کردار
منصور اعجاز کو طلب کیا ہے۔سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں ہونے والے کمیٹی
کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تینوں افراد کو 10 جنوری تک بلایا جائے گا۔رضا
ربانی نے بتایا کہ پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز کی کمیٹی کے اجلاس
میں شرکت یقینی بنانے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ وزیر اعظم
یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر پارلیمانی کمیٹی امریکی قیادت کو بھیجے گئے
متنازع میمو یا خط کے معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔حسین حقانی اور خود حکومت
مبینہ طور پر صدر آصف علی زرداری کی ایما پر لکھے گئے خط سے لاتعلقی کا اظہار
کر چکے ہیں، لیکن ملک کی عسکری قیادت کے بقول میمو ایک حقیقیت ہے اور اس کی
تحقیقات ضروری ہیں۔حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز
شریف سمیت کئی افراد نے اس معاملے کی تحقیقات کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں
آئینی درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں۔جبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف
چوہدری نثار نے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کی موجودگی سے متعلق وزیر اعظم کا
بیان عالمی سطح پر فوج کیخلاف چارج شیٹ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ جو
پاکستان کے گلے پڑ سکتا ہے ، وزیراعظم اس حوالے سے وضاحت کریں ریکارڈ پر یہ
بات لائیں اور اپنا بیان واپس لینے سمیت قومی اسمبلی کی کارروائی سے حذف کیا
جائے ، نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجلی، گیس بحران
پر متعلقہ وزراءاپنی کوتاہی تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہو جائیں، حکومت گیس بحران
پر ڈرافٹ تیار کر کے پیر کو ایوان میں بحث کرائے۔ مفرور وزیرپٹرولیم ڈاکٹر
عاصم کو ایوان کے سامنے پیش کیا جائے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عوام
کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ ہم اس اسمبلی کو بامقصد بناکر آگے
کی طرف لے کر بڑھیں۔ ہمارے کسی رکن کی جانب سے سی این جی بند کرنے کی تجویز
قطعاً پارٹی کا موقف نہیں ہے۔ عام صارفین کو 10.10 ہزار کے بلز بھجوائے جارہے
ہیں۔ کیا کسی کا احتساب ہو گا کوئی پارلیمنٹ کو جواب دہ ہو گا۔ پارلیمنٹ کو
احتساب کرنے دیں ۔ اسمبلی کا آخری سال ہے کچھ تو تقدس رہنے دیں ۔منتخب
پارلیمنٹ کو بے مقصد بے معنی بنانے کی وجہ سے پرویز مشرف حکومت سے تعلق رکھنے
والوں کو متحرک ہونے کا موقع ملا ۔جاوید ہاشمی کو مناسب عہدہ نہ دینے پر ہم پر
تنقید کی جاتی ہے ،وزارتیں نااہل لوگوں کو دی جارہی ہیں، ہم اسپیکر اور ڈپٹی
کا احترام کرتے ہیں۔ گزشتہ روز جاوید ہاشمی کے خطاب کے حوالے سے بات حکومتی
ارکان کیلئے کی تھی، ہمیں بھی مخدوم جاوید ہاشمی کی طرح شاہ محمود کی تقریر
سننے کی خواہش تھی لیکن انہیں کوشش کے باوجود موقع نہیں دیا گیا۔جبکہ وزیراعظم
سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ صدر زرداری اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز
کیانی کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہیں، حکومت مستحکم ہے، اقتدار کیلئے قبل از
وقت انتخابات کا مطالبہ پرانا حربہ ہے تمام جماعتیں متفق ہیں کہ حکومت کو 5
سال پورے کرنے چاہئیں، جلد انتخابات کا کوئی امکان نہیں،راتوں رات بننے والی
پارٹیاں جلد ختم ہو جاتی ہیں، ملکی پالیسیاں بنانا فرد واحد کا کام نہیں،
حکومت آئین و قانون کے مطابق کام کر رہی ہے، سرائیکی صوبہ پیپلزپارٹی ہی
بنائیگی، بھٹو کے فلسفے پر چلنے والوں کو فصلی بٹیروں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں،
پی پی کارکنوں کو ترقیاتی منصوبوں میں 5 فیصد کوٹہ ملے گا۔ وہ گزشتہ روز ملتان
میں صحافیوں سے بات چیت میں وزیراعظم نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت سرائیکی
عوام کے حقوق کی جنگ قومی اور صوبائی اسمبلی میں لڑے گی۔ پیپلز پارٹی کے دور
حکومت میں ناانصافیاں ختم کرنے کی کوشش کی گئیں، جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ عوام
کو ان کے حقوق نہ ملیں وہ حکومت کی ٹانگ کھینچنے کی کوشش کررہے ہیں ہم انکی
سازشیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے جو لوگ عوام کے حقوق کے خلاف سازش کریں گے
کروڑوں عوام اسے مسترد کردیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کے
بارے میں قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی سفارشات تیار کر رہی ہے۔ یہ
سفارشات پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں گی اور پارلیمنٹ میں اتفاق رائے حاصل کرنے
کے بعد اس بارے میں پالیسی وضع کی جائے گی۔ آئندہ تمام پالیسیاں پارلیمنٹ
بنائے گی، فرد واحد کے فیصلے نہیں ہوں گے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتر پیش
رفت ہو رہی ہے، ہم افغان مسئلہ کا بھی پائیدار حل چاہتے ہیں کیونکہ مستحکم
افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہو گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ
سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے ہم اتفاق رائے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اس حق
کیلئے صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں علم بلند کیا جائے گا۔
--
Rizwan Ahmed Sagar
Bhalwal(Sargodha)
03458650886/03006002886
Email.sagarsadidi@gmail.com
http://sargodhatv.blogspot.com/
http://bhalwalnews.blogspot.com
http://urduartical.blogspot.com <